کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 782
فرار ہو کر سندھ، ترکستان، چین کی طرف بھاگ گئے اور مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہوئے کچھ مسلمان ہو کر عزت و آرام کے ساتھ اپنے ملک میں زندگی بسر کرنے لگے، سوء اتفاق سے بنی ہاشم اور بنو امیہ میں جب قومی و خاندانی رقابتوں نے ترقی کی تو ان ایرانیوں کو بھی قومی رقابت یاد آگئی اور انہوں نے عبداللہ بن سبا اوردوسرے منافقوں کی سازشوں میں بڑے ذوق و شوق سے حصہ لینا شروع کیا، ان سازشوں اور مسلمانوں کی خانہ جنگیوں سے ان ایرانیوں کے منصوبوں میں جو سندھ و کابل و چین و تبت وغیرہ میں جلا وطن ہو کر اور مخالف اسلام کوششوں میں مصروف تھے، از سر نو جان پڑ گئی اور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کو ایرانیوں کی بدولت کوفہ و بصرہ میں بھی اور ایران و خراسان کے علاقوں میں بھی بار بار مشکلات کا سامنا ہوا۔ سندھ کا ملک چونکہ بصرہ و کوفہ یعنی عراق سے نسبتاً قریب تھا اور ایرانی حکومت کی سرحد اس سے ملتی تھی، لہٰذا زیادہ تر شرارت پیشہ ایرانیوں کا مامن ملک سندھ ہی بنا ہوا تھا، اسلامی فتوحات کے سیلاب کو دیکھ دیکھ کر سندھ کا راجہ خود بھی ایرانیوں کی بربادی سے متاسف اوراس امر کا کوشاں تھا کہ کسی طرح ایرانی اپنی سلطنت پھر قائم کر سکیں ، چنانچہ ایران کے آخری بادشاہ نے معرکہ نہادند کے بعد کئی مرتبہ فوجیں جمع کر کے مسلمانوں کا مقابلہ کیا، تو ان مقابلوں اور معرکوں میں سندھ کی امدادی فوج شاہ ایران کے ساتھ ضرور ہوتی تھی، ایران کی سلطنت جب برباد ہوئی، تو سندھ کے راجہ نے اپنے سرحدی ایرانی صوبوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور مغلوب و مفتوح ایرانیوں نے کرمان و بلوچستان وغیرہ کے صوبوں کو بخوشی سندھ کے راجہ کو سپرد کر دیا، تاکہ وہ مسلمانوں کے قبضے میں نہ جا سکیں اوراس کے معاوضہ میں سندھ کے راجہ کی حمایت ان کو حاصل رہے۔ یہ باتیں اس امر کی محرک تھیں کہ مسلمان سندھ پر حملہ کر کے سندھ کے راجہ کودرست کریں ، لیکن سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ابھی ایران و خراسان پر مکمل قبضہ نہ ہونے پایا تھا کہ اندرونی فسادات شروع ہو گئے اور سندھ کی طرف کوئی توجہ نہ ہو سکی، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اندرونی خرخشوں سے نجات حاصل کر کے بیرونی ممالک کی طرف توجہ کی اور ان کے زمانہ میں سندھ کے راجہ سے وہ صوبے جو ایرانی سلطنت کا جزو تھے واپس لینے کی کوشش کی گئی، اس سلسلہ میں معمولی چھیڑ چھاڑ سندھی فوجیوں سے ہوئی، لیکن ان کے بعد یزید کی حکومت میں پھر وہی اندرونی فسادات واپس آگئے اور مسلمان بیرونی علاقوں کی طرف متوجہ نہ ہو سکے۔ عبدالملک کے زمانہ میں پھر مسلمانوں کو بیرونی ممالک کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ملا، لیکن حجاج