کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 776
اور مشورہ کی ہمیشہ قدر کرنا اور مخالفت سے بچنا کیونکہ یہ وہی جبڑے ہیں جن سے تم چباتے ہو اور وہی دانت ہیں جن سے تم توڑتے ہو۔ عقلمندوں پر احسان کرو کیونکہ وہ اس کے مستحق ہیں ۔‘‘ پھر وہ باتیں کہیں جن کا اوپر ذکر عبد الملک کے ابتدائی حالات میں ذکر ہوچکا ہے۔ اس کے بعد عبد الملک کا انتقال ہوگیا اور لوگوں نے ولید بن عبد الملک کے ہاتھ پر بیعت کی۔ عبدالملک کے پندرہ سولہ بیٹے اور کئی بیٹیاں تھیں ۔ اس کی بیویوں میں ایک یزید بن معاویہ کی بیٹی، ایک علی رضی اللہ عنہ کی اور ایک عبد اللہ بن جعفر کی بیٹی تھی۔ ولید اور سلیمان دونوں بھائی ولادہ بنت عباس کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ خلاصہ کلام: عبدالملک بن مروان خلفائے بنوامیہ میں ایک مشہور اور بااقبال خلیفہ تھا۔ اس نے تمام عالم اسلام کو ایک مرکز سے وابستہ کرنے میں کامیابی حاصل کی اور شہادت عثمان( رضی اللہ عنہ ) کے بعد جو افتراق پیدا ہوگیا تھا، اس کو دور کرکے ایک عالمگیر اسلامی حکومت دوبارہ قائم کی۔ اس کام میں اس نے سختی و تشدد سے زیادہ کام لیا لیکن وہ اس کی معذرت میں خود کہا کرتا تھا کہ اگر ایسے جاہل و سرکش لوگوں سے صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کو واسطہ پڑتا تو وہ بھی یہی کرتے جو میں نے کیا۔ عبد الملک نے بنوامیہ کی حکومت کی جڑ جمادی جو اس سے پہلے مشتبہ حالت میں تھی۔ عبد الملک کے مزاج میں درشتی و سخت گیری کے ساتھ ہی معقولیت پسندی اور حق شناسی بھی تھی۔ ہم کو اس کو مستقل مزاجی اور بلند ہمتی کی بھی تعریف کرنی پڑتی ہے۔ عبدالملک کی غلطیوں اور خطاؤں میں سب سے بڑی خطا یہ سمجھی جاتی ہے کہ اس نے حجاج کو اس کے استحقاق سے زیادہ اختیار و اقتدار دیا اور حجاج نے اپنے اختیار کے ظالمانہ استعمال میں کمی نہیں کی، لیکن اس قسم کی غلطیاں ہر اس حکمران سے سرزد ہوسکتی ہیں جو اپنی سلطنت کے قیام و استحکام کا خواہاں ہو۔ عبد الملک کی کامیابیوں میں عبید اللہ بن زیاد، حجاج بن یوسف ثقفی اور مہلب بن ابی صفرہ کو خاص طور پر دخل ہے۔ عبدالملک کے زمانے میں مسلمانوں کو فتوحات ملکی بھی حاصل ہوئی اور اندرونی خدشے بھی ایک ایک کرکے سب مٹ گئے۔ عبد الملک نے اپنی تیرہ سالہ خلافت میں جو جو کام انجام دیے، ان کے اعتبار سے اس کا شمار نامور اور کامیاب خلفاء میں ہے۔ ساتھ ہی وہ باعظمت و باجبروت خلیفہ بھی تھے۔ علم و فضل کے اعتبار سے بھی اس کا مرتبہ بہت بلند تھا اور شجاعت و سپہ گری کے اعتبار سے بھی وہ بہادروں اور نامور سپہ سالاروں کی فہرست میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ عبدالملک کی وفات کے وقت ہم عالم اسلام کے ایک پر آشوب زمانہ سے نکل کر پر امن و سکون زمانے میں پہنچ گئے ہیں ۔