کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 774
کر رتبیل و طرخون کی طرف حملہ آور ہوا۔ یہ موسیٰ کے مقابلے کی تاب نہ لاکر بھاگے اور موسیٰ دور تک ان کے تعاقب میں نکل گیا۔ جب موسیٰ واپس آیا تو اہل ضور اور دوسرے ترک قلعہ ترمذ کے درمیان حائل ہوگئے۔ لڑائی ہونے لگی۔ موسیٰ کو ہر چہار طرف سے ترکوں نے گھیر لیا۔ عثمان بن مسعود بھی اسی طرف متوجہ ہوگیا۔ اوّل موسیٰ کا گھوڑا مارا گیا، پھر اس کے بعد موسیٰ بھی داد شجاعت دیتا ہوا مقتول ہوا۔ اس طرح پندرہ سال تک ترمذ میں خود مختارانہ حکومت کرنے کے بعد سندھ ۸۵ھ میں موسیٰ بن عبد اللہ بن حازم جو قبیلہ قیس سے تعلق رکھتا تھا، اس جہان سے رخصت ہوا۔ مفضل نے قتل موسیٰ کی بشارت حجاج کو لکھی لیکن وہ کچھ خوش نہیں ہوا۔ نضر بن سلیمان نے ترمذ مدرک کے سپرد کیا اور مدرک نے عثمان کے سپرد کیا۔ سکہ اسلامیہ کی ابتدا: عبد الملک بن مروان کی اولیات میں ایک یہ بات بھی ہے کہ اس کے زمانے میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنا سکہ بنایا اور جاری کیا۔ اب تک شام، عرب مصر وغیرہ میں رومیوں کے سکے رائج تھے۔ عراق میں عموماً ایرانیوں کے سکے رائج تھے۔ ملک عرب میں نہ کوئی عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی تھی نہ عربی سکے موجود تھے۔ انھیں رومی سکوں کا رواج قدیم سے تمام ملک میں موجود تھا۔ اب جبکہ اسلامی سلطنت قائم ہوکر بلخ دجیجون سے بحر اطلانطک تک پھیل گئی تو کسی کی توجہ اس طرف مبذول نہ ہوئی کہ اپنا سلسلہ الگ جاری کریں ۔ اتفاقاً عبد الملک بن مروان کو بادشاہ روم کے پاس چند خطوط بھیجنے کا اتفاق ہوا۔ عبد الملک نے اسلامی دستور کے موافق خطوط کی پیشانی پر کلمہ توحید باری تعالیٰ اور درود شریف لکھا۔ شاہ روم نے عبد الملک کو لکھا کہ تم اپنے خطوط کی پیشانی پر توحید باری تعالیٰ اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ذکر نہ لکھا کرو۔ یہ ہم کو ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ اگر تم اس حرکت سے باز نہ آئے تو ہم اپنی ٹکسال میں ایسے درہم و دینار مضروب کرا کر رائج کریں گے جن پر تمہارے نبی کا نام توہین کے ساتھ لکھا ہوا ہوگا اور تم کو بے حد ناگوار گزرے گا۔ عبد الملک کو اس خط کے پڑھنے سے تردّد پیدا ہوا اور اس نے خالد بن یزید بن معاویہ سے مشورہ طلب کیا۔ خالد نے کہا کہ تم رومی سکوں کا رواج اپنے ملک میں قطعاً ترک کردو اور اپنے سکے مضروب کراکر رائج کرو۔ عبد الملک نے اس رائے کو پسند کرلیا اور دارالضرب قائم کرکے چودہ قیراط وزن کے درہم مضروب کرائے جو پانچ ماشے کے قریب وزنی ہوتے تھے۔ اس کے بعد حجاج نے درہم و دینار پر ایک طرف قل ہو اللہ احد مضروب کرایا۔ غرض عبد الملک نے فرمان جاری کردیا کہ خراج میں سوائے عربی سکوں کے کوئی دوسرا سکہ قبول نہ کیا جائے گا۔ اس طرح فوراً تمام ملک میں عربی دینار و درہم مروج ہوگئے۔ اہم واقعات کے سلسلہ میں بعض باتیں درج ہونے سے رہ گئیں ۔ مثلاً عبد الملک بن مروان نے