کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 772
خیال بالکل صحیح ثابت ہوا اور حجاج نے نو مہینے کے بعد مفضل بن مہلب کو خراسان کی گورنری سے معزول کر کے قتیبہ بن مسلم کو خراسان کی گورنری پر مامور کیا۔ موسیٰ بن حازم: موسیٰ بن عبد اللہ بن حازم کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ اس نے ترمذ میں اپنی ایک خودمختار حکومت قائم کرلی تھی۔ اوپر یہ بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حریث و ثابت پسران قطنہ خزاعی، مہلب کے پاس سے فرار ہوکر موسیٰ بن عبد اللہ کے پاس ترمذ میں چلے گئے تھے۔ مہلب جب خراسان کا گورنر ہوا تو اس نے اپنے عہد حکومت میں موسیٰ بن عبد اللہ سے مطلق چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور اپنے بیٹوں کو بھی نصیحت کی کہ تم لوگ موسیٰ سے ہمیشہ درگزر کا برتاؤ کرنا کیونکہ اگر موسیٰ بن عبد اللہ نہ ہوا تو پھر خراسان کی گورنری پر کوئی شخص بنوقیس سے آئے گا۔ ہرات کے قریب عبد الرحمن بن عباس کے ہمراہی لوگ جو اس جگہ سے فرار ہوئے، وہ بھی سیدھے ترمذ میں موسیٰ بن عبد اللہ کے پاس پہنچے۔ جب عبد الرحمن بن محمد کا سر کاٹ کر رتبیل نے حجاج کے پاس بھیجا تو عبد الرحمن کے ہمراہی رتبیل کے پاس سے بھاگ کر موسیٰ بن عبد اللہ کے پاس آئے اور ترمذ میں پناہ گزیں ہوئے۔ اسی طرح موسیٰ بن عبد اللہ کے پاس ترمذ میں آٹھ ہزار عربوں کی جمعیت فراہم ہوگئی۔ حریث و ثابت دونوں بثائی وزارت و سپہ سالاری کی خدمات انجام دیتے تھے اور موسیٰ بن عبد اللہ خود مختار بادشاہ تھا۔ حریث و ثابت نے موسیٰ سے کہا کہ اہل بخارا اور تمام ترک سردار یزید بن مہلب سے ناراض ہیں ۔ آؤ! ان سب کو اپنے ساتھ ملا کر یزید بن مہلب کو خراسان سے بے دخل کرکے ملک خراسان پر قبضہ کرلیں ۔ موسیٰ نے کہا کہ اگر یزید کو خراسان سے نکال دیا تو عبد الملک کا کوئی دوسرا گورنر آکر قابض ہوجائے گا اور ہم خراسان کو بچا نہ سکیں گے۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ ماوراء النہر یعنی ترکستان کے علاقوں سے عبد الملک کے عاملوں کو نکال دیں ۔ اس ملک پر ہم بہ آسانی اپنا قبضہ قائم رکھ سکیں گے کیونکہ اِدھر ہر طرف سے عبد الملک کی فوجیں نہیں آسکتیں اور تمام سرحدوں پر ترک و مغل موجود ہیں جو ہماری مدد کریں گے۔ چنانچہ ماوراء النہر کے علاقے سے تمام عاملوں کو نکال دیا گیا اور موسیٰ بن عبد اللہ کی حکومت ترمذ میں خوب مضبوط و مستقل ہوگئی۔ چند روز کے بعد ترکوں ، مغلوں اور تبتیوں نے مل کر موسیٰ کے ملک پر حملہ کیا۔ ترکوں کا سردار دس ہزار فوج لیے ہوئے ایک ٹیلہ پر کھڑا تھا۔ حریث بن قطنہ نے اس پر حملہ کیا۔ یہ حملہ اس شدت و سختی کے ساتھ کیا گیا کہ ترکوں کو ٹیلے کے پیچھے پناہ لینی پڑی۔ اس ہنگامہ دار و گیر میں ایک تیر حریث بن قطنہ کی پیشانی پر آلگا۔ زخم ایسا کاری تھا کہ دو دن کے بعد حریث فوت ہوگیا۔ اس روز چونکہ شام ہوگئی تھی، لڑائی