کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 770
پاس چلا گیا، عبدالرحمان بن محمد کے ہمراہیوں نے سجستان کے قریب جمع ہو کر عبدالرحمان بن عباس بن ربیعہ بن حرث بن عبدالمطلب کو اپنی نمازوں کا امام بنایا اور اپنے ساتھیوں کو ہر طرف سے بلایا اور عبدالرحمان بن محمد کے پاس پیغام بھیجا کہ تم واپس چلے آؤ اور خراسان پر قبضہ کر لو، عبدالرحمان بن محمد نے کہا کہ خراسان پر یزید بن مہلب حکمران ہے، خراسان کا اس سے چھین لینا آسان کام نہیں ، لیکن ان لوگوں نے باصرار عبدالرحمان بن محمد کو بلوایا، وہ رتبیل کے پاس سے رخصت ہو کر آیا، ان لوگوں کی تعداد بیس ہزار تھی، ان کو لے کر ہرات کی طرف گیا، ہرات پر قبضہ کیا، یزید بن مہلب فوج لے کر مقابلہ پر آیا، جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے، تو لڑائی شروع ہونے سے پیشتر ہی عبدالرحمان بن محمد کے لشکری میدان سے بھاگنے لگے، مجبوراً عبدالرحمان بن محمد نے اپنے چند ہمرائیوں سے مقابلہ کیا، بہت سے مقتول و گرفتار ہوئے، عبدالرحمان بن محمد وہاں سے سندھ کی طرف بھاگا، یزید نے اپنی فوج کو تعاقب کرنے سے روک دیا، عبدالرحمان بن محمد سندھ پہنچ گیا۔ یزید نے جنگ ہرات میں جن لوگوں کو قید کیا تھا، انہیں مرولے جاکر وہاں سے حجاج کے پاس بھیج دیا، انھی قیدیوں میں محمد بن سعد بن ابی وقاص بھی تھے، جو حجاج کے حکم سے قتل کیے گئے۔ عبدالرحمان بن محمد بن اشعث سندھ سے رتبیل کے پاس چلا گیا اور وہاں جا کر سل کے عارضہ میں بیمار ہو گیا، حجاج نے رتبیل کو لکھا، کہ عبدالرحمان بن محمد کا سر کاٹ کر بھیج دو تو دس برس کا خراج معاف کردیا جائے گا، رتبیل نے اس بیمار کا سر کاٹ کر حجاج کے پاس بھیج دیا، یہ واقعہ ۸۴ھ کا ہے۔ شہر واسط کی آبادی: اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ عبدالرحمان بن محمد کے مقابلہ کی غرض سے حجاج کو عبدالملک کے پاس سے بار بارفوجی امداد طلب کرنی پڑی تھی، جب عبدالرحمان بن محمد عراق سے بے دخل ہو کر سجستان کی طرف واپس آیا ہے تو حجاج کے پاس شامی لشکر بہت زیادہ تعداد میں موجود تھا، اہل بصرہ و کوفہ کی طرف سے حجاج کو اطمینان نہ تھا، کیونکہ عبدالرحمان بن محمد کے ساتھ شریک ہو کر لڑنے والے اہل کوفہ و اہل بصرہ ہی تھے۔ لہٰذا شامی لشکر کو ایک عرصہ تک کوفہ میں اپنے پاس رکھنا نہایت ضروری تھا۔ اول حجاج نے حکم دیا کہ شامی لوگ کوفیوں کے گھروں میں قیام کریں ، لیکن چند ہی روز کے بعد شامی لوگوں نے کوفی عورتوں کے ساتھ بدعنوانیاں شروع کر دیں ، اس کا حال حجاج کو معلوم ہوا، تو اس نے شامی لشکر کے لیے ایک الگ چھاؤنی قائم کرنی ضروری سمجھی، چنانچہ اس نے تجربہ کار لوگوں کی ایک جماعت کو مامور کیا کہ وہ چھاؤنی کے لیے کوئی مناسب مقام تجویز کریں ۔