کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 768
عبدالملک کی فرستادہ فوجیں جب آگئیں ، تو حجاج ان کو لے کر بصرہ سے اس طرف آگے بڑھا، اور مقام تستر میں پہنچ کر سواروں کے دستے کو بطور مقدمۃ الجیش آگے بڑھایا، عبدالرحمان بن محمد بھی قریب پہنچ چکا تھا، عبدالرحمان کے سواروں نے حجاج کے سواروں کو شکست دے کر بھگایا اور ایک بڑے حصے کو قتل کر ڈالا۔ اب حجاج تستر سے مجبوراً بصرہ کی طرف لوٹا اور مقام زاویہ کی طرف مڑ گیا، عبدالرحمان سیدھا بصرہ میں داخل ہوا، اہل بصرہ نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی، حجاج کو مہلب کی نصیحت یاد آئی، اس نے جو کچھ لکھا تھا درست لکھا تھا، اہل بصرہ حجاج کی سخت گیری سے نالاں تھے، سب کے سب عبدالملک بن مروان کے خلع خلافت اورحجاج سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ واقعہ آخر ذی الحجہ ۸۱ھ کا ہے، شروع محرم ۸۲ھ سے حجاج اور عبدالرحمان بن محمد کے درمیان لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا، کبھی حجاج غالب ہوتا کبھی عبدالرحمان، لیکن ۲۹ محرم ۸۲ھ کو جو لڑائی ہوئی، اس میں عبدالرحمان بن محمد کو شکست فاش حاصل ہوئی، عبدالرحمان بن محمد بن اشعث اپنے شکست خوردہ ہمرائیوں کو لے کر کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور کوفہ دارالامارۃ پر قابض ہو گیا۔ اہل بصرہ نے عبدالرحمان بن محمد کی شکست کے بعد عبدالرحمان بن عباس بن ربیعہ بن حرث بن عبدالمطلب کے ہاتھ پر بیعت کی اور حجاج کے ساتھ مقابلہ و مقاتلہ کا سلسلہ جاری رکھا، پانچ چھ روز تک عبدالرحمان بن عباس نے حجاج کا خوب سختی سے مقابلہ کیا، اس فرصت سے عبدالرحمان بن محمد آسانی سے کوفہ پر قابض و متصرف ہو گیا، آخر عبدالرحمان بن عباس بھی مع بہت سے بصریوں کے بصرہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور عبدالرحمان بن محمد سے کوفہ میں جا ملا۔ حجاج بصرہ میں داخل ہوا اور حکیم بن ایوب ثقفی کو بصرہ میں حاکم مقرر کر کے خود کوفہ کی طرف روانہ ہوا، مقام دیر قرہ میں ڈیرے ڈالے ادھر کوفہ سے عبدالرحمان بن محمد نکلا اور دیرجم پر مورچے باندھے، طرفین سے خندقیں ، مورچے، دمدمے باندھے گئے اور لڑائی شروع ہوئی، یہ لڑائی عرصہ تک جاری رہی، ہر روز دونوں طرف کی فوجیں میدان میں نکلتیں اور ایک دوسرے کو پیچھے ہٹاتیں ، لیکن کوئی فیصلہ جنگ کا نہ ہوتا تھا، آخر عبدالملک نے اپنے بیٹے عبداللہ اور اپنے بھائی محمد بن مروان کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ کیا اور اہل عراق کی طرف ان دونوں کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ’’ہم حجاج کو معزول کیے دیتے ہیں ، اہل عراق کے وظائف مثل اہل شام کے مقرر کر دیں گے، عبدالرحمان بن محمد جس صوبہ کی حکومت پسند کرے اس کو دے دی جائے گی۔‘‘ حجاج کو اس پیغام کا حال معلوم ہو کر سخت صدمہ ہوا، اس نے عبداللہ بن محمد کو اس پیغام کے پہنچانے