کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 767
ہمارے اس حکم کی تعمیل کی تو بہتر ورنہ تو اپنے آپ کو معزول سمجھ، اور تیری جگہ تیرا بھائی اسحاق بن محمد بن اشعث امیر لشکر ہے۔ یہ تینوں حکم عبدالرحمان بن محمد کے پاس یکے بعد دیگرے پہنچے، عبدالرحمان نے حجاج کے احکام کو پڑھ کر تمام لشکر کو جمع کر کے ایک تقریر کی اورکہا کہ میں نے تم سب لوگوں کے مشورے سے یہ بات قرار دی تھی کہ ہم ترکوں کے مفتوحہ ملک کا انتظام کریں اور اس سال اپنی مضبوطی اور تیاری مکمل کر کے آئندہ سال بقیہ ملک کو فتح کریں ، لیکن حجاج ترکوں سے لڑنے اور بلاتوقف حملہ آور ہونے کو لکھتا ہے، اسے تمہارے تھک جانے اورآرام کرنے کا بھی خیال نہیں ہے، یہ وہی ملک ہے جہاں تمہارے بھائی پچھلے دنوں برباد ہو چکے ہیں ، میں بھی تمہارا بھائی اور تم ہی جیسا ایک شخص ہوں ، اگر سب لوگ لڑنے اور آگے بڑھنے پر آمادہ ہیں ، تو میں سب کے ساتھ ہوں ۔ اس تقریر کو سن کر تمام کوفی و بصری یک لخت برافروختہ ہو گئے اور یک زبان ہو کر کہنے لگے کہ ہم حجاج کی اطاعت ہر گز نہ کریں گے اور ہر گز اس کا کہنا نہ مانیں گے، عائل بن واثلہ کہانی کہنے لگا، کہ حجاج تو اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، اس کو امارت سے معزول کر کے عبدالرحمان بن محمد کے ہاتھ پر امارت کی بیعت کر لو، ہر طرف سے لوگ بول اٹھے کہ ہاں ہاں ہمیں یہ بات بالکل منظور ہے، عبدالرحمان بن شیث ربعی نے اٹھ کر کہا، چلو اللہ کے دشمن حجاج کو اپنے شہر سے نکال دو، یہ سنتے ہی تمام لشکری عبدالرحمان کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو ٹوٹ پڑے اور انہوں نے عہد کیا کہ ہم حجاج کو عراق سے نکال کر چھوڑیں گے، اسی وقت عبدالرحمان بن محمد نے رتبیل کے پاس پیغام بھیجا اور اس شرط پر فوراً صلح ہو گئی کہ اگر ہم حجاج کو خارج کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو رتبیل کے ملک کا تمام خراج معاف کر دیا جائے گا اور اگر حجاج غالب آیا تو رتبیل اس کو یا اس کی فوج کو اپنے علاقے میں داخل ہونے سے روکے گا اور بر سر مقابلہ پیش آئے گا۔ چنانچہ یہ لشکر تمام فتح کیے ہوئے علاقے کو چھوڑ کر عراق کی طرف واپس روانہ ہوا۔ جب اس لشکر کے واپس آنے کا حال حجاج کو معلوم ہوا، تو اس نے عبدالملک کو لکھا کہ یہ صورت پیش آئی ہے، اب میری مدد کے لیے فوج روانہ کرو، عبدالملک نے فوج روانہ کی۔ مہلب کو جب اس حادثہ کی اطلاع ہوئی، تو اس نے حجاج کو ہمدردانہ لکھا کہ تم اہل عراق کو واپس آکر اپنے اپنے گھروں میں پہنچ لینے دو اور ان سے بالکل متعارض نہ ہو۔ حجاج نے اس مشورے کی کوئی پروا نہیں کی، بلکہ وہ عراقیوں سے بدظن ہو گیا، اس نے مہلب کی نسبت بھی اپنے دل میں بدگمانی کو راہ دی اور یہ خیال کیا کہ مہلب گورنر خراسان بھی ضرور ان لوگوں کا ہم خیال و مشیر ہو گا۔