کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 764
یزید اپنے بھائی کی جگہ حکومت کرنے لگا۔ اس واقعہ کے چند ہی روز کے بعد مہلب اہل کش سے صلح کر کے لوٹا، اس مصالحت میں یہ بات بھی طے ہو گئی تھی کہ اہل کش اپنے بادشاہ کے لڑکوں کو مسلمانوں کے سپرد کر دیں اور یہ لڑکے بطور ضمانت اس وقت تک مسلمانوں کی زیر حراست رہیں ، جب تک مقررہ رقم جزیہ اہل کش مسلمانوں کی خدمت میں حاضرکریں ، مہلب اپنی طرف سے حریث بن قطنہ کو وہاں زر فدیہ یا جزیہ وصول کرنے اور لڑکوں کو واپس دینے کی غرض سے چھوڑ آیا تھا، مہلب جب کش سے روانہ ہو کر بلخ پہنچا تو اس نے حریث بن قطنہ کو ایک قاصد کے ذریعہ اطلاع دی کہ تم زر فدیہ لے کر لڑکوں کو اس وقت تک نہ چھوڑنا جب تک کہ تم خود سر زمین بلخ میں نہ پہنچ جاؤ۔ مدعا اس سے مہلب کا یہ تھا کہ جو دقت راستے میں یزید کو پیش آئی تھی وہی مصیبت حریث کو پیش نہ آئے، حریث نے فوراً یہ خط اہل کش کو دکھا دیا اور کہا کہ اگر تم فوراً زر جزیہ مجھ کو دے دو، تو میں تمہارے لڑکوں کو یہیں تمہارے سپرد کر دوں گا اور امیر مہلب سے کہہ دوں گا کہ آپ کا خط آنے سے پہلے میں روپیہ لے کر لڑکے واپس دے چکا تھا، اہل کش نے فوراً روپیہ ادا کر دیا اور لڑکے واپس لے لیے۔ راستے میں ترکوں نے حریث کے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیا جو یزید کے ساتھ کیا تھا، لڑائی ہوئی، بہت سے آدمی حریث کے مارے گئے، بہت سے ترکوں نے گرفتار کر لیے اور پھر ان گرفتاروں کو زیر فدیہ لے کر واپس کیا۔ جب مہلب کے پاس حریث بن قطنہ پہنچا تو اس نے اپنے حکم کی خلاف ورزی کی سزا میں کوڑے لگوائے، اس سزا کے بعد حریث نے لوگوں کے سامنے مہلب کے مار ڈالنے کی قسم کھائی، مہلب کو اس کا حال معلوم ہوا تو اس نے حریث کے بھائی ثابت بن قطنہ کو بلا کر نرمی کے ساتھ سمجھایا، اور حریث کو اپنے سامنے بلوایا، حریث نے مہلب کے سامنے بھی اپنی گستاخانہ قسم کا اعادہ کیا، مہلب نے چشم پوشی کی راہ سے رخصت کر دیا، حریث و ثابت اب اپنے دل میں ڈرے اور اپنے تین ہمراہیوں کو لے کر مہلب کے پاس سے بھاگ گئے اور سیدھے موسیٰ بن عبداللہ بن حازم کے پاس مقام ترمذ میں پہنچ گئے، موسیٰ بن عبداللہ بن حازم کا حال اوپر پڑھ چکے ہو کہ اس نے اپنی ایک الگ خود مختار حکومت قائم کر لی تھی اور خراسان کے امیروں سے بر سر پرخاش رہتا تھا، یہ واقعہ ۸۲ھ کا ہے۔ مہلب کی وفات اور بیٹوں کو وصیت: مہلب کو اپنے بیٹے مغیرہ کی وفات کا سخت صدمہ ہوا تھا، مرو میں واپس آکر وہ زیادہ دن نہیں رہا