کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 756
مستعد کار ہونے لگے، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل اور عبدالملک کے تسلط سے عراق کے اندر باغیانہ خیالات کے لوگ سرگوشیاں کرنے لگے، عبدالملک نے عراق پر قابض ہو کر بصرہ کی حکومت خالد بن عبداللہ کو سپرد کی تھی، عراق سے دمشق میں جا کر عبدالملک کی تمام تر توجہ خوارج کی طرف مبذول نہیں رہ سکتی تھی، کیونکہ اس کو حجاز اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا بھی خیال دامن گیر تھا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل سے فارغ ہو کر عبدالملک نے بصرہ و کوفہ کے عاملوں کو معزول کر کے اپنے بھائی بشیر بن مروان کو بصرہ و کوفہ دونوں مقامات کی حکومت عطا کی اور حکم دیا کہ مہلب بن ابی صفرہ کو جنگ خوارج پر مامور کر کے فارس کی طرف بھیج دیا جائے کہ وہ جہاں کہیں ان کو پائے ان کا استیصال کرے، ساتھ ہی حکم دیا کہ مہلب کو اختیار دیا جائے کہ وہ بصرہ سے جن جن لوگوں کا انتخاب کرے اور اپنے ساتھ لے جانا چاہے لے جائے اور ایک زبردست فوج کوفہ سے بھی تیار کر کے مہلب کی کمک کے لیے بھیجی جائے تاکہ اس فتنہ کا مکمل استیصال و انسداد ہو جائے، یہ حکم مہلب کے نام بھی براہ راست بھیج دیا گیا۔ بشیر بن مروان کو یہ بات ناگوار گزری کہ امیر المومنین نے براہ راست مہلب کی تعیناتی کیوں کی، وہ چاہتا تھا کہ خوارج کی سرکوبی کا کام میرے زیر اہتمام انجام پذیر ہونا چاہیے تھا، میں اپنے اختیار سے جس کو چاہتا اس کام پر مامورکرتا، مہلب بن ابی صفرہ عبدالملک کے حکم کی تعمیل میں بصرہ سے ایک جمعیت لے کر روانہ ہوا، ادھر بشیر بن مروان نے بھی کوفہ سے عبدالرحمن بن مخنف کی سرکردگی میں ایک لشکر مہلب کی کمک کے لیے روانہ کیا، مگر روانگی کے وقت عبدالرحمن بن مخنف سے کہا کہ میں تم کہ مہلب سے زیادہ قابل سرداری سمجھتا ہوں ، تم اپنے آپ کو بالکل مہلب کا ماتحت ہی بنا کر نہ رکھنا، بلکہ اپنی رائے سے بھی کام لینا۔ عبدالرحمان بن مخنف دارہرمز میں مہلب سے جا کرملا، لیکن وہ اپنی فوج الگ لے کر خیمہ زن ہوا، اور اپنی خود مختاری کے علامات ظاہر کرنے لگا، چند ہی روز کے بعد اسی مقام پر خبر پہنچی کہ بشیر بن مروان فوت ہوا اور مرتے وقت خالد بن عبداللہ کو اپنا قائم مقام بنا گیا ہے، اس خبر کو سنتے ہی اہل بصرہ بھی اور اہل کوفہ بھی اپنے اپنے شہروں کو واپس چل دیئے، خالد بن عبداللہ نے ہر چند ان لوگوں کو سمجھایا اور ڈرایا، لیکن کوئی بھی مہلب کی طرف واپس جانے پر آمادہ نہ ہوا۔ ادھر خراسان کی یہ حالت تھی کہ عبداللہ بن حازم کے قتل کے بعد سے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، ترکستان و مغولستان کے بادشاہ رتبیل نامی نے خراسان کی سرحدوں پر فوج کشی شروع کر دی تھی، اور عبداللہ