کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 753
سے حدیث سنی اور اس سے عروہ، خالد بن سعدان، رجاء بن حیوۃ، زہری، یونس بن میسرہ، ربیعہ بن یزید، اسماعیل بن عبیداللہ، جریر بن عثمان وغیرہ نے روایت کی۔ یحییٰ غسانی کہتے ہیں کہ جب مسلم بن عقبہ (۶۳ھ میں یزید بن معاویہ کے حکم سے مدینہ پر حملہ کرنے والی فوج کا سپہ سالار) مدینہ میں پہنچا تو میں مسجد نبوی میں گیا اور عبدالملک کے پاس جا بیٹھا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تو بھی اس فوج میں ہے؟ میں نے کہا ہاں ، عبدالملک نے کہا کہ تو نے ایسے شخص کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں ، جو ظہوراسلام کے بعد سب سے پہلے پیدا ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ارو ذات النطاقین کی اولاد ہے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحنیک کی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں جب کبھی اس سے دن میں ملا ہوں تو اس کو روز دار پایا ہے اور جب رات کو اسے دیکھا تو نماز ہی پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، یاد رکھ جو اس سے مخالف ہو کر لڑے گا اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ دوزخ میں گرائے گا۔ لیکن تعجب ہے کہ جب عبدالملک تخت پر بیٹھا تو اس نے حجاج کو سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے لڑنے کو بھیجا اور اس نے ان کو شہید کر ڈالا۔ جریج کہتے ہیں کہ سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد عبدالملک نے خطبہ پڑھا، اس میں حمد و ثنا کے بعد کہا کہ’’میں نہ خلیفہ ضعیف یعنی عثمان رضی اللہ عنہ ہوں ، نہ خلیفہ سست یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ ہوں ، نہ خلیفہ ضعیف الرائے یعنی یزید ہوں ، مجھ سے پہلے جو خلیفہ تھے، وہ اس مال سے کھاتے پیتے رہے ہیں ، مجھ سے سوا تلوار کے اس کا علاج اور کچھ نہ ہو گا، چاہیے کہ تمہارے نیزے میری مدد کے لیے بلند ہو جائیں ، تم مہاجرین کے اعمال سے ہمیں تو مکلف کرتے ہو اور خود ان کی مانند عمل نہیں کرتے، یاد رکھو میں تمہیں سخت عذاب سے ہلاک کروں گا اور تلوار ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی، تم ذرا دیکھتے جاؤ، میری تلواریں کیا حال کرتی ہیں ، میں تمہاری تمام باتیں گوارا کر لوں گا مگر حاکم سے جنگ کرنا برداشت نہیں کر سکتا، میں ان کے تمام افعال ان کی گردنوں میں ڈال دوں گا، پھر چاہے کوئی خوف اللہ تعالیٰ سے ڈرایا کرے۔‘‘ سب سے پہلے عبدالملک ہی نے کعبہ پر دیباج کے پردے ڈالے، عبدالملک سے کسی نے کہا کہ امیر المومنین آپ پر بڑھاپا بہت ہی جلد آگیا، تو اس نے کہا کیسے نہ آتا، میں ہر جمعہ کو اپنی بہترین عقل لوگوں پر خرچ کرتا ہوں ، عبدالملک سے کسی نے پوچھا، کہ آدمیوں میں سب سے بہتر کون ہے، اس نے کہا کہ جس شخص نے بلند رتبہ ہو کر تواضع کی اور بحالت اختیار زہدکو ترجیح دی اور بحالت قوت عدل و انصاف