کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 751
اسلامی لشکر میں شریک ہو گئے تھے اور مدینہ منورہ سے کوئی خصوصی تعلق ان کو حاصل نہ ہو سکا تھا، نہ انہوں نے کبھی مدینہ دیکھا تھا۔ کچھ لوگ ایسے تھے کہ ان کی زبان تو عربی تھی، مگر وہ مجوسی سلطنت کی رعایا تھے اور اب مسلمان ہو کر اور مسلمانوں کے طرز حکومت کو بہتر پا کر دل سے مسلمانوں کے حامی ہو گئے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایرانیوں سے لڑتے تھے۔ کچھ وہ سردار تھے جو مدینہ کے رہنے والے مہاجرین و انصار میں سے تھے۔ جب اس لشکر کی چھاؤنی کوفہ قرار پائی اور خلیفہ وقت کا نائب اور عراقی لشکر کا سپہ سالار کوفہ میں رہنے لگا، تو ایرانی شہروں کے بہت سے شہریوں کو ان کی ضرورتوں نے دارالصدور کوفہ سے تعلقات قائم رکھنے پر مجبور کیا اور ایرانیوں کی بھی ایک جماعت کوفہ میں رہنے لگی۔ عرب کے ریگستانوں کی زاہدانہ زندگی کے مقابلے میں کسریٰ و نوشیردان و کیکاؤس و کے خسرو کے ملکوں کو فتح کرنے والے لشکریوں کی فاتحانہ و حاکمانہ زندگی جو کوفہ میں بسر ہوئی تھی، یقینا بہت خوش گوار ہو گی، مال غنیمت کی فراوانی بھی ضرور محرک ہوئی ہو گی، لہٰذا اس عطر مجموعہ لشکر کا اکثر و بیشتر حصہ کوفہ ہی میں زمین گیر ہو کر رہ گیا اور کوفہ نہ صرف ایک فوجی چھاؤنی اور عارضی قرار گاہ رہا، بلکہ بہت جلد ایک عظیم الشان شہر بن گیا اور بالآخر اس نے دارالسلطنت اور دارالخلافہ کی صورت اختیار کر لی، اس شہر کی آبادی میں چونکہ فوجیوں کا بڑا عنصر شامل تھا اور علم و تعلم، درس و تدریس اور تہذیب اخلاق و تہذیب نفس کے سامان بہت ہی کم تھے، لہٰذا مجموعی طور پر شہر کا مزاج متلون اور اخلاقی حالت متغیر رہی، ظاہر ہے کہ ایسی بستی میں علوم و معقولات اور فہم و تدبر کو تلاش نہیں کیا جا سکتا، لیکن جذبات سے خوب کام لیا جا سکتا ہے، چنانچہ اہل کوفہ ہمیشہ جذبات کے محکوم و مغلوب رہے اور انہوں نے جو کچھ کیا جذبات سے مغلوب و متاثر ہی ہو کر کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جس شخص نے ان کو مشتعل کرناچاہا، مشتعل کر دیا، جس شخص نے ان کو رضامند کرنا چاہا، وہ رضا مند ہو گئے، جب کبھی ان کو ڈرایا گیا تو وہ ڈر گئے، جب کبھی ان کو کسی کا مخالف بنایا گیا، وہ فوراً مخالفت پر آمادہ ہو گئے، جب ان کو بہادر بنایا گیا وہ بہادر ہو گئے، جب ان کو بے وفائی پر آمادہ کیا گیا وہ بے وفا بن گئے، جب وفاداری یاد دلائی گئی تو وہ وفاداری کی شرائط پورے کرنے لگے۔ کوفہ کے اندر جذبات تھے، دماغ نہ تھا، جوش تھا، مگر عقل نہ تھی، خروش تھا مگر غور و فکر کا سکون نہ تھا، ایسی حالت میں کوفہ سے ان ہی باتوں کی توقع ہو سکتی تھی جو ظہور میں آئیں ، جب چند نسلیں گزر گئیں ، اور