کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 750
بن سکتی تھی، بارود کا شعلہ نہیں بن سکتا تھا۔ سرزمین کوفہ: اب تک جس قدر حالات بیان ہو چکے ہیں ، ان سب کے مطالعہ سے کوفہ اور اہل کوفہ کی نسبت قلب میں عجیب عجیب قسم کے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں اور کوفہ روئے زمین کی ایک عجیب بستی نظر آنے لگتی ہے، عبداللہ بن سبا اور ہر ایک سازشی گروہ کو کوفہ میں کامیابی حاصل ہوئی، اہل کوفہ ہی سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل میں پیش پیش تھے، اہل کوفہ ہی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے سب سے زیادہ فدائی و شیدائی نظر آتے تھے۔ پھر اہل کوفہ ہی نے سب سے زیادہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو پریشان کیا اور وہی ان کی بہت سی ناکامیوں کا باعث بنے۔ اہل کوفہ ہی نے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو آزار پہنچایا، پھر اہل کوفہ ہی خون علی رضی اللہ عنہ کے مطالبہ اور خلافت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے آمادہ ہوئے، آخر اہل کوفہ ہی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا باعث بنے اور انہوں نے بڑی بے دردی سے کربلا کے میدان میں ان کو قتل کرایا۔ اس کے بعد اہل کوفہ ہی نے خون حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ لینے پر سب سے بڑھ کر آمادگی واستادگی اختیار کی اور حیرت انگیز طور پر اپنی محبت کا ثبوت پیش کیا، پھر اہل کوفہ ہی تھے جنہوں نے اہل بیت کے سب سے بڑے حامی مختار بن عبید کے خلاف کوشش کی اور مصعب بن زبیر کو کوفہ پر حملہ آور کروا کر مختار کو قتل کرایا، اس کے بعد اہل کوفہ ہی تھے جو معصب بن زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کا باعث ہوئے۔ اہل کوفہ نے اپنی انتہائی شجاعت اور حیرت انگیز بہادریوں کے نمونے بھی دکھائے اور ساتھ ہی ان کی انتہائی بزدلی و نامردی کے واقعات بھی ہم مطالعہ کر چکے ہیں ، کبھی انہوں نے اپنے آپ کو نہایت بے جگری کے ساتھ قتل کرایا اور کوفہ کے حاکموں کی علی الاعلان مخالفت کی لیکن کبھی اس طرح مرعوب و خوفزدہ ہوئے کہ عبیداللہ بن زیاد وغیرہ امرائے کوفہ کے ہر ایک جابرانہ حکم کی تعمیل بلا چون و چرا کرنے لگے۔ اس قسم کی متضاد کیفیت و حالات دریافت کرنے کے لیے ہم کو کوفہ کے باشندوں کی حالت و حقیقت سے آگاہ ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کوفہ ان لوگوں کی چھاؤنی بنائی گئی تھی، جو مجوسی سلطنت کے مقابلہ میں بر سر پیکار تھے، اس فوج میں ایک حصہ ان لوگوں کا تھا جو حجاز و یمن اور حضرموت وغیرہ صوبوں کے رہنے والے تھے، یہ لوگ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اعلان عام پر مدینہ منورہ میں آکر جمع ہوئے، اور ان کے حکم کے موافق عراق کی طرف بھیج دیئے گئے تھے۔ کچھ لوگ ایسے تھے، جو عرب کے ان صوبوں کے باشندے تھے جو عراق کی سرحد پر واقع اور بمقابلہ مدینہ کے کوفہ یا بصرہ سے قریب تر تھے، یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھ پر مسلمان ہو ہو کر