کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 749
روائی کا زمانہ ختم ہو گیا وہ سب سے آخری صحابی تھے جنہوں نے ملکوں پر حکومت کی، ان کی زاہدانہ و عابدانہ زندگی ایک مشعل راہ اور نجم ہدایت تھی، وہی ایک ایسے خلیفہ تھے جن کا دارالخلافہ مکہ معظمہ تھا، نہ ان سے پہلے مکہ معظمہ کبھی دارالخلافہ بنا، نہ ان کے بعد آج تک کسی نے مکہ معظمہ کو دارالخلافہ بنایا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ان کے بھائی سیّدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما اوران کے باپ سیّدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی بہادریوں کے کارنامے پڑھ کر اور ان کی والدہ سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شجاعت، و حوصلہ مندی دیکھ کر انسان کادل مرعوب ہو جاتا اور دنیا کے شجاعت پیشہ لوگوں کو بے اختیار اس بہادر خاندان کے ساتھ محبت پیدا ہو جاتی ہے، خاک و خون میں لوٹنا، حمایت حق میں سینے پر برچھیوں اور تیروں کے زخم کھا کر آگے بڑھنا اور دشمنان حق کو تہ تیغ کرنا، جیسے دشوار اور مشکل کام ہے، اس سے زیادہ مزے دار اور خوش گوار بھی ہے۔ قلب کی قوت، ارادے کی پختگی اور ہمت و حوصلہ کی بلندی کے اظہار کا موقع تلواروں کی چمک، برچھیوں کی انی اور تیروں کی بارش ہی میں سب سے بہتر میسر آ سکتا ہے۔ ہمارا زمانہ بھی کیسا منحوس وقت ہے کہ صفحات تاریخ میں مومنوں کی بہادری اور بہادروں کی جاں فروشی کے افسانے تھوڑی دیر کے لیے ہماری رگوں میں خون کے دوران کو بڑھادیتے ہیں لیکن ہم اپنی آنکھوں سے کوئی ایسا میدان نہیں دیکھ سکتے، جہاں سر تلواروں سے کٹ کٹ کر گر رہے ہوں ، نیزے سینوں کو چھید چھید کر پار نکل رہے ہوں ، گردنوں سے خون کے فوارے نکل رہے ہوں ، لاشیں خون کی کیچڑ میں تڑپ رہی ہوں ، گھوڑوں کی ٹاپوں میں کچل کچل کر لاشوں کے قیمے بن رہے ہوں ، کٹے ہوئے سر فٹ بال کی طرح گھوڑوں کی ٹھوکروں سے ادھر ادھر لڑھک رہے ہوں ، گرد و غبار میں آفتاب چھپ گیا ہو، تکبیر کے نعرے بلند ہو رہے ہوں ، مردان باللہ تعالیٰ اپنے محبوب حقیقی کا بول بالا کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اس خوش فضا نظارے کا احاطہ کر لیا ہو۔ یہ مسرت افزاء اور دل فریب نظارے طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما ، خالد و ضرار رضی اللہ عنہما ، شرحبیل و عبدالرحمن رضی اللہ عنہما ، حسین بن علی رضی اللہ عنہما ، و عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، محمد خاں ثانی، سلیمان اعظم، صلاح الدین ایوبی، و نورالدین زنگی، محمود غزنوی، و شہاب الدین غوری رحمہ اللہ کے حصے میں آئے تھے ہم ضعیف الایمان و بزدل لوگوں کی ایسی قسمت کہاں تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تلواروں ، نیزوں اور تیروں کو بے کار کر کے ان کی جگہ توپوں ، بندوقوں اور ہوائی جہازوں کو دنیا میں بھیج دیا ہے، کیونکہ قلب کی قوت، ارادے کی پختگی، ہمت و حوصلے کی بلندی، یعنی ایمان کامل کے اظہار کا مظہر جس خوبی سے تلوار کی دھار