کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 748
اسلام میں لوگوں نے اپنی آزاد مرضی سے ان کو خلیفہ تسلیم کیا اور جہاں جہاں لوگوں کو آزادی حاصل تھی، کسی نے بھی ان کی خلافت سے انکار نہیں کیا، ہاں بنو امیہ جو خلافت کے معاملہ میں ان کے رقیب تھے ان کی مخالفت پر آمادہ ہوئے اور شام و فلسطین و مصر وغیرہ میں جبر و قہر کے ساتھ انہوں نے اپنی حکومت دوبارہ قائم کی اور پھر اسی جبر و قہر کے ساتھ وہ تمام عالم اسلامی پر اپنی حکومت قائم کر سکے، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے بالمقابل مروان بن حکم اور عبدالملک بن مروان کی حکومت کو باغیوں کی حکومت کہا جا سکتا ہے، پس عبدالملک بن مروان کی حکومت کا وہ زمانہ جو سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت کے بعد شروع ہوتا ہے اس کو باقاعدہ حکومت اور جائز خلافت سمجھنا چاہیے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اپنے عہد حکومت میں کوئی ایسا موقع نہیں ملاکہ وہ لڑائیوں اور چڑھائیوں کی فکر سے مطمئن بیٹھے ہوں ، اس لیے اگر ان کے عہد حکومت میں جدید فتوحات اور اندرونی اصلاحیں ہم کو نظر نہ آئیں ، تو کوئی تعجب کا مقام نہیں ، وہ بہت بڑے سپہ سالار اور جنگی شہ سوار تھے، ساتھ ہی وہ بڑے مدبر اور حکمران بھی تھے، یہ ایک اتفاقی بات تھی کہ ان کے حریفوں کی تدبیریں ان کے خلاف کامیاب ثابت ہوئیں اور ان کو جام شہادت نوش کرنا پڑا، ان کی زندگی کا عملی نمونہ زہد و عبادت کے اعتبار سے بہت ہی قابل تعریف تھا۔ بنو امیہ کے خلفاء میں یہ بات خصوصیت سے نمایاں تھی کہ وہ اپنی خلافت و حکومت کے قیام و استحکام کے لیے روپیہ سے خوب کام لینا جانتے تھے، وہ روپیہ کے حاصل کرنے میں بھی خوب مستعد تھے اور اس روپیہ کو اپنے حصول مقصد کے لیے خرچ بھی خوب سلیقہ کے ساتھ کرتے تھے، اگر لوگوں میں روپیہ کی محبت پیدا نہ ہو گئی ہوتی، تو وہ ہر گز کامیاب نہ ہو سکتے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو ان کے مقابلے میں ہر گز ناکامی حاصل نہ ہوتی، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اگر عبدالملک بن مروان کی طرح بیت المال کو اپنے دوستوں اور مددگاروں کے لیے وقف کر دیتے اور کمزوروں کا لحاظ نہ کرتے، تو ان کے گرد بھی بہت سے شمشیرزن جمع ہو جاتے اور بنو امیہ کو نیچا دیکھنا پڑتا لیکن سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس خلاف تقویٰ راہ عمل کو ہمیشہ ناپسند کیا، اور ان کے لیے یہی موزوں بھی تھا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں مختار بن ابی عبیدہ کاکوفہ میں قتل ہونا ایک بڑا کارنامہ تھا، فارس کے فتنہ خوارج کو بھی انہوں نے خوب دبایا اور حتی الامکان ان کوسر نہیں اٹھانے دیا، اگر بنو امیہ کے ساتھ اندرونی معرکہ آرائی اور زور آزمائی جاری نہ ہوتی تو وہ بہترین خلیفہ ثابت ہوتے اور شریعت اسلام کو دنیا میں بہت رواج دیتے، ان کی شہادت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حکومت و فرماں