کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 747
یعنی مقام حجون میں دار پر لٹکا دی گئی اور سر عبدالملک کے پاس بھیجا گیا، ایک دوسری روایت کے موافق سر عبدالملک کے پاس نہیں بھیجا گیا، بلکہ خانہ کعبہ کی دیواریا پرنالہ پر لٹکا دیا گیا۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے لاش کے دفن کرنے کی اجازت چاہی، مگر ان کو حجاج نے اس کی اجازت نہ دی، عبدالملک کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اس نے حجاج کو ملامت کی اور لاش کو دفن کرنے کی اجازت دی، چند روز کے بعد سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا۔ حجاج شہادت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے بعد خانہ کعبہ میں داخل ہوا، پتھروں کی بڑی کثرت تھی جو باہر سے خانہ کعبہ پر پھینکے گئے تھے، فرش مبارک پر خون کے جابجا نشانات تھے، پتھروں کو اٹھوایا اور خون کو دھلوایا، اہل مکہ سے خلافت عبدالملک کی بیعت لی، اس کے بعد مدینہ منورہ کو واپس ہوا، وہاں دو مہینے تک ٹھہرا رہا، وہاں تمام اہل مدینہ کو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قاتل سمجھ کر سختیاں شروع کیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سخت آزار پہنچائے، وہاں سے پھر مکہ معظمہ کی جانب آیا، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے بنائے ہوئے خانہ کعبہ کو ڈھا کر پھر از سر نو خانہ کعبہ کی تعمیرکی، عبدالملک بن مروان نے حجاج کو ملک حجاز کا گورنر مقرر کیا اوراس نے طارق کی جگہ مدینہ منورہ میں رہنا شروع کیا۔ خلافت ابن زبیر رضی اللہ عنہما پر ایک نظر: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان کابیٹا یزید اس بات کا مستحق نہ تھا کہ مسلمانوں کا خلیفہ بنایا جائے، کیونکہ اس کے سوا بہت سے لوگ مسلمانوں میں ایسے موجود تھے جو یزید سے زیادہ حکومت و خلافت کی قابلیت رکھتے تھے، ان ہی میں ایک سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے، یزید کی عملی زندگی بہت ہی قابل اعتراض تھی اور اسی لیے بعض حضرات نے اس کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد اگر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے، تو بہت زیادہ ممکن تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلیفہ یا شہنشاہ تسلیم کر لیے جاتے، یزید کے مقابلہ میں اگر سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدعی خلافت بن کر کھڑے ہوتے تو نہ صرف تمام دوسرے طبقات اہل اسلام ان کے شریک ہوتے، بلکہ خود بنی امیہ میں سے بھی ایک بڑی جماعت ان کی حمایت میں سرگرم نظر آتی، مگر انہوں نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہ کی، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے خود خلافت کے حصول کی بہت کوشش کی مگر ان کو کوفہ والوں نے دھوکا دیا، مکہ و مدینہ کے لوگوں کا مشورہ انہوں نے قبول نہ کیا اور اہل حجاز ان کی کوئی امداد نہ کر سکے، اب ان کے بعد سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بہتر کوئی شخص نہ تھا، جو مستحق خلافت ہو۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے صحیح خلافت ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تمام عالم