کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 745
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ’’تم اپنے معاملے کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہو، اگر تم حق پر ہو اور حق کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو، تو اس کام میں برابر مصروف رہو، تمہارے ساتھی بھی راہ حق میں شہید ہوئے، اور تم بھی اسی راہ پر گامزن رہ کر شہادت حاصل کرو، اگر تم نے دنیا حاصل کرنے کا قصد کیا تھا، تو تم بہت ہی نالائق آدمی ہو، تم خود بھی ہلاکت میں پڑے اور تم نے اپنے ہمراہیوں کو بھی ہلاکت میں ڈالا، میری رائے یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو بنوامیہ کے حوالے نہ کرو، موت اپنے وقت پر ضرور آجائے گی، تم کو مردوں کی طرح جینا اور مردوں کی طرح مرنا چاہیے، تمہارا یہ کہنا کہ میں حق پر تھا اور لوگوں نے مجھ کو دھوکا دے کرکمزور کر دیا ایک ایسی شکایت ہے جو نیک آدمیوں کی زبان پر نہیں آیا کرتی۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ’’مجھ کو اس بات کا خوف ہے کہ وہ لوگ قتل کرنے کے بعد مجھ کو مثلہ کریں گے اور صلیب پر لٹکائیں گے۔‘‘
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ’’بیٹا بکری جب ذبح کر ڈالی گئی، تو اسے اس کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے کہ اس کی کھال کھینچی جاتی ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو بصیرت کے ساتھ کیے جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے امداد طلب کرتے رہو۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ماں کے سر کا بوسہ لیا اورعرض کیا کہ’’میری بھی یہی رائے تھی جو اپنی رائے آپ نے ظاہر فرمائی، مجھ کو دنیا کی خواہش اور حکومت کی تمنا بالکل نہ تھی، میں نے اس کام کو صرف اس لیے اختیار کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی تھی اور ممنوعات سے لوگ بچتے نہ تھے، جب تک میرے دم میں دم ہے میں حق کے لیے لڑتا رہوں گا، میں نے آپ سے مشورہ لینا ضروری سمجھا اور آپ کی باتوں نے میری وصیت کو بہت کچھ بڑھا دیا اور اماں جان میں آج ضرور مارا جاؤں گا، تم زیادہ مغموم نہ ہونا، تم مجھ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو، میں نے کبھی ناجائز کام کا قصد نہیں کیا اور نہ کسی سے بد عہدی کی، نہ کسی پر ظلم کیا، نہ ظالم کا معاون بنا، حتی الامکان اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کیا، الٰہی میں نے یہ باتیں فخر کی راہ سے نہیں کہیں ، بلکہ صرف اس لیے کہ میری ماں کو تسکین خاطر حاصل ہو۔‘‘
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں :’’مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کا اجر عطا فرمائے گا، تم اللہ تعالیٰ کا نام لے کر دشمنوں پر حملہ کرو۔‘‘
بیٹے کو رخصت کرتے وقت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے گلے سے لگایا، تو ہاتھ زرہ پر پڑا، پوچھا تم نے یہ زرہ کس ارادہ سے پہن رکھی ہے، کہا صرف اطمینان و مضبوطی کی غرض سے، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا اس کو اتار دو اور معمولی کپڑے پہنے ہوئے دشمنوں سے لڑو، سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے وہیں زرہ اتار کر پھینک دی،