کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 744
حجاج نے جب یہ دیکھا کہ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی ہے تو اس نے سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ہمراہیوں کے پاس امان نامے لکھ لکھ کر بھیجنے شروع کر دیئے، یہ امان نامہ والی تدبیر کارگر ثابت ہوئی اور بہت سے آدمی سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر حجاج کے پاس چلے آئے بہت ہی تھوڑے سے آدمی سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس رہ گئے، حتی کے ان کے دو لڑکے حمزہ و حبیب بھی باپ کو چھوڑ کر حجاج کے پاس آگئے، تیسرا لڑکا باپ کے ساتھ رہا اور آخر وقت تک داد مردانگی دیتا رہا، حتی کہ عین معرکہ کار زار میں کام آیا۔ جب سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس سے ہزاروں آدمی حجاج کے پاس آگئے اور معدودے چند شخص باقی رہ گئے تو حجاج نے اپنے لشکر کو ایک جگہ جمع کر کے اس طرح تقریر کی کہ’’تم لوگ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا اندازہ کر چکے ہو، ان کے ہمراہی اس قدر تھوڑے ہیں کہ اگر تم میں سے ہر شخص ان پر ایک ایک مٹھی کنکریاں پھینکے تو وہ سب کے سب مر جائیں ، پھر لطف یہ کہ وہ بھوکے پیاسے ہیں ، اے شامی و کوفی دلاورو بڑھو، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما چند ساعت کا مہمان ہے۔‘‘ اس تقریر سے پیشتر حجاج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں ایک خط بھیج چکا تھا، اس میں لکھا تھا کہ ’’اب آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں رہی، آپ ہر طرح مجبور ہو چکے ہیں ، بہتر یہی ہے، کہ آپ ہماری امان میں آجائیں اور امیر المومنین عبدالملک کی بیعت اختیار کر لیں ، آپ کے ساتھ انتہائی عزت و تکریم کا برتاؤ کیا جائے گا اور آپ کی ہر ایک خواہش پوری کر دی جائے گی، مجھ کو امیر المومنین نے یہی حکم دیا ہے، کہ میں جہاں تک ممکن ہو آپ کو صلح و آشتی کی طرف متوجہ کروں اور آپ کے قتل میں حتی الامکان عجلت سے کام نہ لوں ۔ شہادت ابن زبیر رضی اللہ عنہما : سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اس خط کو پڑھ کر اپنی ماں سیدہ اسماء بنت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ’’میرے پاس اب کوئی آدمی نہیں رہا، برائے نام صرف پانچ آدمی باقی ہیں جو میرا ساتھ دینے پر بظاہر اب تک آمادہ ہیں ، لوگوں نے میرے ساتھ اسی طرح دھوکے کا برتاؤ کیا، جیسا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ کیا تھا، لیکن ان کے بیٹے جب تک زندہ رہے باپ کے سامنے تلوار لے کر دشمنوں سے لڑتے رہے، میرے تو بیٹے بھی اس فاسق کی امان میں چلے گئے، اب حجاج کہتا ہے، کہ تم بھی امان میں آجاؤ اور جو کچھ مانگو ہم دینے کو تیار ہیں ، پس میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں ۔‘‘