کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 743
اس سال حج کے لیے تشریف لائے تھے، انہوں نے یہ حالت دیکھ کر حجاج کے پاس پیغام بھیجا ’’کہ بندہ اللہ تعالیٰ اتنا تو خیال کر کہ دور دور سے لوگ حج کے لیے آئے ہوئے ہیں ان کو طواف کرنے اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا تو موقع مل جائے، اس سنگ باری کو حج کے ختم ہونے تک بند کرا دے۔‘‘ اس پیغام کا یہ اثر ہوا، کہ حجاج نے سنگ باری بند کرا دی، مگر خود طواف نہیں کیا اور نہ سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو میدان عرفات میں جانے دیا، ایام حج کے گزرتے ہی حجاج کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ باہر سے آئے ہوئے تمام اشخاص فوراً اپنے اپنے شہروں کو روانہ ہو جائیں کیونکہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما پر سنگ باری شروع ہونے والی ہے، اس آواز کو سنتے ہی لوگوں کے قافلے روانہ ہو گئے اور ساتھ ہی بچے ہوئے مکہ والوں میں سے بھی بہت سے لوگ اپنی اپنی جان بچا کر نکل گئے۔ حجاج نے پھر سنگ باری شروع کر دی ایک بڑا پتھر خانہ کعبہ کی چھت پر آکر گرا اور چھت ٹوٹ کر گری، اس پتھر کے آتے ہی آسمان سے ایک سخت کڑک کی آواز آئی، بجلی چمکی اور زمین و آسمان پر تاریکی چھا گئی، حجاج کی فوج کے لوگ ڈر گئے اور پتھر پھینکنے بند کر دیئے، حجاج نے لوگوں کو تسلی و تشفی دی اور کہا کہ یہ بجلی اور یہ کڑک میری امداد کے لیے آئی ہے اور یہ میری فتح کا نشان ہے، تم لوگ مطلق خوف و ہراس کو اپنے دلوں میں راہ نہ دو۔ دو روز تک تاریکی چھائی رہی اور کڑک کی آواز کے خوف سے کئی آدمی حجاج کی فوج کے مر گئے، حجاج کی فوج میں بڑی تشویش پھیلی ہوئی تھی، اتفاقاً اگلے روز پھر بجلی گری اور دو آدمی سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی فوج کے بھی اس کے صدمے سے فوت ہو گئے، اس سے حجاج کو بڑی خوشی ہوئی اور اس کے لشکر والوں کو بھی کچھ اطمینان ہوا، حجاج نے خود اپنے ہاتھ سے منجنیق پر پتھر رکھ رکھ کر پھینکنے شروع کیے اس کے بعد تمام لشکر کا خوف جاتا رہا اور زور و شور سے سنگ باری شروع ہو گئی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے تھے اور بڑے بڑے پتھر ان کے ارد گرد آ آکر گرتے تھے، لیکن ان کی توجہ الی اللہ اور نماز کے خشوع و خضوع میں رتی برابر فرق نہیں آتا تھا۔ یہ محاصرہ اسی شدت سے برابر جاری رہا، مکہ معظمہ میں باہر سے کسی قسم کی امداد و سامان رسد نہیں پہنچ سکتا تھا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنا گھوڑا ذبح کر کے لوگوں میں تقسیم کر دیا، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس غلہ اور کھجوروں کا ایک ذخیرہ موجود تھا، وہ اس ذخیرہ میں سے صرف اس قدر لوگوں کو تقسیم کرتے تھے، جس سے حیات باقی رہے، مدعا انکا یہ تھا کہ ہم دیر تک محاصرین کے مقابلہ پر قائم رہ سکیں ۔