کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 742
دمشق سے کوفہ گیا، وہاں اس نے حجاج بن یوسف ثقفی کو اس کام پر آمادہ کیا، حجاج تین ہزار آدمیوں کو ہمراہ لے کر جمادی الاول ۷۲ھ میں کوفہ سے روانہ ہوا اور مدینہ منورہ کو چھوڑتا ہوا عبدالملک کی ہدایت کے موافق طائف میں پہنچ کر قیام کیا، یہاں سے وہ اپنے سواروں کو عرفہ کی طرف روزانہ روانہ کرتا اور وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے سواروں سے لڑ بھڑ کر واپس آجاتے، کئی مہینے اسی حالت میں گزر گئے، تو حجاج نے عبدالملک کو لکھا کہ میری امداد کے لیے کچھ فوج بھیجی جائے۔ نیز مجھ کو اجازت دی جائے کہ آگے بڑھ کر مکہ کامحاصرہ کر لوں ۔ عبدالملک نے حجاج کی درخواست کو منظور کر کے پانچ ہزار آدمی اس کی امداد کے لیے اور روانہ کر دیئے اور طارق کولکھا کہ مدینہ منورہ پر حملہ کرو اور مدینہ سے فارغ ہو کر مکہ کی طرف جاؤ اور حجاج کی مدد کرو، حجاج نے بماہ رمضان المبارک مکہ معظمہ کا محاصرہ کر لیا اور کوہ ابو قبیس پر منجنیق لگا کر سنگ باری شروع کر دی، اہل مکہ کے لیے یہ رمضان کا مہینہ اس سنگ باری کے عالم میں بڑی مصیبت کا مہینہ تھا، لوگ محاصرہ کی شدت سے تنگ آکر مکہ سے نکل نکل کر بھاگنا شروع ہوئے، رمضان و شوال کے بعد ذیقعدہ کا مہینہ بھی آگیا اور اہل مکہ کی مصیبت اور محاصرہ کی شدت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما روزانہ مقابلہ پر جاتے اور محاصرین کو پسپا کرنے کی کوششیں عمل میں لاتے، لیکن روزانہ ان کے ساتھیوں کی تعداد کم ہو رہی تھی، اس لیے ان کی تدابیر کوئی ایسا نتیجہ پیدا نہ کر سکیں ، جس سے کامیابی کی امید ہوتی۔ اہل مکہ ایک طرف مکہ سے باہر نکلے چلے جا رہے تھے، دوسری طرف سامان خورد و نوش کی نایابی و گرانی نے محصورین کے حوصلوں کو پست کر رکھا تھا، ماہ ذیقعدہ ۷۲ھ میں طارق نے مدینہ منورہ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے عامل طلحہ النداء کو نکال دیا اور ایک شامی کو مدینہ کاحاکم مقرر کر کے خود مکہ معظمہ کی طرف پانچ ہزار فوج کے ساتھ روانہ ہوا، اس زبردست امداد کے پہنچنے پر حجاج کی طاقت بہت زیادہ بڑھ گئی اور اہل مکہ کی رہی سہی امیدیں بھی منقطع ہو گئیں ، اسی حالت میں ماہ ذی الحجہ شروع ہو گیا اور دور دور سے لوگ حج کے لیے آنا شروع ہوئے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے حجاج کو حج کرنے کی اجازت دے دی تھی مگر اس نے نہ طواف کیا، نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے میدان عرفات میں جانا چاہا تو حجاج نے روک دیا چنانچہ انہوں نے مکہ ہی میں قربانی کی، میدان عرفات میں کوئی امام نہ تھا، غرض اس سال لوگ ارکان حج ادا نہ کر سکے، ایام حج میں بھی حجاج نے سنگ باری کو بند نہ کیا، اس لیے خانہ کعبہ کا طواف بھی خطرے سے خالی نہ تھا، حاجیوں کی آمد سے مکہ میں قحط اور بھی زیادہ بڑھ گیا، سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی