کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 74
میں سے کچھ کھا لیتا تو قتل سے محفوظ ہو جاتا تھا، جس کو قید سے آزاد کر دینا چاہتے تو اوّل اس کے سر کے بال تراش لیتے، ان میں مبارزت کی لڑائیوں کا بہت رواج تھا، صف بندی کر کے لڑناان میں رائج نہ تھا۔ گھوڑوں اور ہتھیاروں کی نگہداشت کا ان کو بہت زیادہ خیال تھا، شمشیر زنی، تیر اندازی شہسواری نیزہ بازی میں جس شخص کو کمال حاصل ہوتا اس کی بڑی عزت و توقیر کی جاتی اور اس کا نام فوراً دور دور تک مشہور ہو جاتا، بعض قبائل کو بعض فنون حرب اور اسلحۂ جنگ کے استعمال میں شہرت حاصل تھی، خاص خاص تلواروں ، نیزوں ، کمانوں ، گھوڑوں وغیرہ کے خاص خاص نام یعنی اسماء علم تھے اور سارے ملک میں سمجھے اور پہچانے جاتے تھے، مثلاً حرث بن ابی شمر غسانی کی تلوار کا نام خذوم تھا، عبدالمطلب بن ہاشم کی تلوار کا نام عطشان، اور مالک بن زبیر کی تلوار کا نام ذوالنون تھا۔ یہ سب کچھ اس امر کی دلیل ہے کہ عرب کے لوگ جنگ و قتال کے بے حد شائق تھے یہی وجہ ہے کہ گھوڑے اور تلوار کے نام عربی زبان میں ہزاروں تک بتائے جاتے ہیں ۔ عشق بازی: عرب جاہلیت میں پردے کا مطلق رواج نہ تھا،ان کی عورتیں آزادانہ مردوں کے سامنے آتی تھیں ، مشاغل اور ضروریات زندگی کی کمی، آزاد مزاجی اور شاعری و مفاخرت نیز ملک کی گرم آب و ہوا نے یہ منحوس مرض بھی ان میں پیدا کر دیا تھا، ان میں وہ آدمی کمینہ اور ذلیل سمجھا جاتا تھا جس کو کسی عورت سے کبھی عشق پیدا نہ ہوا ہو، [1] عرب کے بعض قبائل اپنی عشق بازی کی وجہ سے مشہور تھے، مثلاً بنی عذرہ کے عشق کی یہاں تک شہرت تھی کہ ’’اعشق من بنی عذرۃ‘‘ کی مثل مشہور ہے، یعنی فلاں شخص بنی عذرہ سے بھی زیادہ عاشق مزاج ہے۔ ایک اعرابی سے کسی نے پوچھا تھا کہ تو کس قوم سے ہے، اس نے جواب دیا میں ایسی قوم میں سے ہوں کہ جب وہ عاشق ہوتے ہیں تو ضرور مرجاتے ہیں ، اس کلام کو ایک لڑکی سن رہی تھی وہ کہنے لگی ’’عذری و رب الکعبہ‘‘ (رب کعبہ کی قسم ہے تو ضرور عذری ہے۔) شاعری: عرب جاہلیت میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جس کو شاعری کا سلیقہ نہ ہو، مرد عورت بچے، بوڑھے، جوان سب کے سب تھوڑے بہت شاعر ضرور ہوتے تھے، گویا وہ ماں کے پیٹ سے شاعری اور فصاحت لے کر پیدا ہوتے تھے ان کی شاعری عموماً فی البدیہہ ہوتی تھی، سوچنے، غور کرنے اور مضمون تلاش کرنے کی ان
[1] اللہ کی پناہ ایسی خرافات سے۔