کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 737
عبدالملک یہ نہیں چاہتا تھا کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما قتل کیے جائیں ، اس لیے اس اپنے بھائی محمد بن مروان کو مصعب کے پاس بھیجا اور کہلا بھجوایا، کہ آپ کی طرف سے اب لڑائی کی شکل بگڑ چکی ہے، آپ کو کسی طرح فتح نہیں ہو سکتی، میں آپ کو امان دیتا ہوں ، آپ میری امان قبول کر لیں ، مصعب نے اس کا انکاری جواب دیا اور کہا کہ مجھ کو صرف اللہ تعالیٰ کی امان کافی ہے، اس کے بعد مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کے بیٹے عیسیٰ سے محمد بن مروان نے کہا کہ تم کو اورتمہارے باپ مصعب دونوں کو امیر المومنین عبدالملک نے امان دی ہے، عیسیٰ نے یہ سن کر باپ سے آکر کہا، مصعب نے کہا کہ ہاں یہ تو مجھ کو بھی یقین ہے کہ اہل شام تمہارے ساتھ وعدہ پورا کریں گے اگر تمہارا جی چاہے تو تم ان کی امان میں چلے جاؤ۔ عیسیٰ نے کہا کہ میں قریش کی عورتوں کو یہ کہنے کا موقع ہر گز نہ دوں گا کہ عیسیٰ اپنی جان بچانے کے لیے باپ سے جدا ہو گیا، مصعب نے کہا، اچھا تم اپنے چچا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس مکہ کی جانب روانہ ہو جاؤ اور ان کو اہل عراق کی غداری کا حال سناؤ، مجھ کو یہیں چھوڑ جاؤ، میں نے اپنے آپ کو مقتول سمجھ لیا ہے، عیسیٰ نے کہا میں یہ خبر جا کر نہ سناؤں گا، مناسب یہ ہے کہ آپ اس میدان جنگ سے واپس چلیں اور سیدھے بصرہ پہنچیں ، وہاں کے لوگ آپ سے بہت خوش ہیں اور آپ کے ہر طرح مطیع ہیں ، بصرے پہنچ کر کچھ تدارک کیا جا سکے گا، یا پھر مکہ کی طرف چلیے۔ مصعب نے کہا صاحب زادے یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ تمام قریش میں میرے میدان سے بھاگنے کا چرچا ہو جائے گا، بہتر یہ ہے کہ تم ہر ایک خیال کو چھوڑ دو اور دشمن پرحملہ کرو،عیسیٰ یہ سنتے ہی اپنے چند ہمراہیوں سمیت دشمن پر حملہ آور ہوا اور سیکڑوں کو خاک و خون میں لٹا کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کی آنکھوں کے سامنے خود بھی ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ اس کے بعد عبدالملک آگے بڑھ کر آیا اور مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بڑی منت اور اصرار کے ساتھ کہا، کہ آپ اب میدان سے واپس چلے جائیں ، یا امان قبول کر لیں ، یہاں تک کہ اس نے اس اصرار میں الحاح و عاجزی سے کام لیا، مگر مصعب نے اس کی طرف مطلق التفات نہ کیا، یہ وقت بھی عجیب و غریب وقت ہو گا کہ عبدالملک اپنی خفیہ تدابیر کے نتائج دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہو گا، کوفیوں کا لشکر میدان میں موجود ہے، مگر اپنے امیر کا ساتھ نہیں دیتا اور دور سے تماشا دیکھ رہا ہے، دوسری طرف مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما حیران ہوں گے کہ جو لشکر میرے اشاروں پر کام کرتا اور گردنیں کٹواتاتھا، وہ میری مدد نہیں کرتا، کوفیوں نے مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما اور امام حسین رضی اللہ عنہ دونوں کے قتل کرانے میں ایک ہی درجہ کا جرم کیا، لیکن یہ دونوں جرم دو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئے، وہاں امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے دشمنوں سے چاہتے تھے