کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 736
کو ایک طاقت ور فوج کے ساتھ دیکھیں گے، تو ہر گز اپنے ان وعدوں سے جو وہ خطوط میں کر رہے ہیں نہ پھریں گے۔ آخر عبدالملک فوج لے کر چلا، ادھر سے اس کے آنے کی خبر سن کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما ی روانہ ہوئے، جس زمانے میں عبدالملک کی فوج کشی کی خبر کوفہ میں پہنچی اس سے پہلے مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما عمر بن عبداللہ بن معمر کو خوارج کے مقابلہ کے لیے بصرہ سے فارس کی طرف بھیج چکے تھے، لہٰذا عمر بن عبداللہ بھی اس لڑائی میں موجود نہ تھا، دار جاثلیق کے قریب دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلہ پہنچ کر خیمہ زن ہوئے، مصعب بن زبیر کی فوج بہت تھوڑی تھی، کیونکہ عین روانگی کے وقت بہت سے لوگوں نے حیلے بہانے کر کے جانے سے انکار کر دیا تھا، جو لوگ میدان میں ساتھ آئے تھے، ان میں سے بھی زیادہ حصہ دشمن سے ملا ہوا تھا، اور اس بات کا منتظر تھا کہ لڑائی شروع ہو تو دشمن سے جا ملیں ، غرض لڑائی شروع ہوئی، عبدالملک نے پوری طاقت سے اوّل اسی حصہ فوج پر حملہ کیا، جو ابراہیم بن مالک کی ماتحتی میں تھی، کیونکہ اس کو ابراہیم بن مالک کی طرف سے بہت خوف تھا، یہ حملہ عبدالملک کے بھائی محمد بن مروان نے کیا تھا، طرفین سے خوب خوب دادشجاعت دی گئی، آخر ابراہیم نے محمد بن مروان کو پیچھے دھکیل دیا، محمد بن مروان کو ہزیمت ہوتے ہوئے دیکھ کر عبدالملک نے عبیداللہ بن زید کو ایک تازہ دم فوج کے ساتھ محمد کی مدد پر بھیجا، اب جم کا مقابلہ ہونے لگا، اسی معرکہ میں مسلم بن عمرو باہلی (قتیبہ بن مسلم کا باپ) بھی کام آیا۔ ابراہیم پر دشمنوں کا ہجوم دیکھ کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے عتاب بن ورقاء کو ابراہیم کی مدد کے لیے بھیجا، عتاب بن ورقاء پہلے ہی درپردہ عبدالملک کی بیعت کر چکا تھا، وہ قرارداد کے موافق فوراً میدان سے فرار ہو گیا، ابراہیم دشمنوں کے نرغہ میں گھر کر بڑی بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا، ابراہیم بن مالک کے مارے جاتے ہی عبدالملک اور اہل شام کا دل بڑھ گیا اور ان کو اپنی فتح کا کامل یقین ہو گیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے دوسرے سرداروں اوراپنے ہمراہیوں سے آگے بڑھنے اور حملہ کرنے کے لیے کہا مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا، سب نے اس کان سنا اور اس کان اڑا دیا، معدودے چند آدمی تھے جو میدان میں لڑ رہے تھے، باقی تمام فوج کوفیوں کی کھڑی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔ کوفیوں کی یہ غداری درحقیقت اس غداری سے جو انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کی بہت بڑھی ہوئی تھی کیونکہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دینے میں ان کو ابن زیاد اور اس کے لشکر نے مجبور کر دیا تھا اور خوف و ہراس ان پر غالب ہو گیا تھا۔ لیکن مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کا ساتھ نہ دینا سراسر ان کی شرارت و غداری اور محسن کشی تھی۔