کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 735
زبیر رضی اللہ عنہما کے خلاف اور بنو امیہ کے موافق لوگوں کو اپنا ہم خیال بنائے، چنانچہ خالد نے بصرہ میں آکر بنو بکر بن وائل اور قبیلہ ازد میں اپنا سازشی کام شروع کیا اور ایک بڑی جماعت اپنے ہم خیال بنا لی، اس کا حال عمر بن عبداللہ بن معمر کو معلوم ہوا تو اس نے فوج بھیجی، خالد کے ہمراہیوں نے مقابلہ کیا اور بالآخر خالد کو بصرہ سے نکال دیا گیا۔ بصرہ کی جب یہ پریشان کن خبریں کوفہ میں پہنچیں اور حالات کا صحیح علم ہوا، تو ناممکن تھا کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما خاموش بیٹھے رہتے۔ بصرہ کی ایسی تشویشناک حالت سن کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کوفہ سے بصرہ آئے اور وہاں خالد کے ہمراہیوں اور ہم خیالوں کو سزائیں دیں ، جرمانے کیے، بعض کے مکانات منہدم کرا دیئے، اسی طرح کوفہ میں بھی اندر ہی اندر عبدالملک کے لوگ اپنا کام کر رہے تھے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ فوجی سردار مثلاً عتاب بن ورقاء وغیرہ بھی اندرونی طور پر عبدالملک سے ساز باز کر چکے تھے۔ ایک طرف عبدالملک نے فوجی تیاریاں شروع کیں ، تو دوسری طرف کوفہ و بصرہ کی فوجوں میں بغاوت کی سازشیں بڑے بڑے لالچ دے کر پھیلا دیں ، چنانچہ ایک مرتبہ ابراہیم بن اشتر کے پاس عبدالملک بن مروان کا ایک سر بمہر خط آیا، ابراہیم جانتا تھا کہ اس میں کیا لکھا ہو گا اس نے اس خط کے لفافے کو کھولے بغیر بجنسہ مصعب کی خدمت میں پیش کر دیا، مصعب نے اس کو کھول کر پڑھا، تو اس میں عبدالملک نے ابراہیم کو لکھا تھا کہ تم میرے پاس چلے آؤ، میں تم کو تمام ملک عراق کا گورنر مقرر کر دوں گا۔ مصعب نے ابراہیم سے کہا ، کہ کیا تم جیسا شخص بھی ایسے فقروں میں آسکتا ہے، ابراہیم نے کہا، کہ میں تو کبھی غدر و خیانت نہ کروں گا، لیکن عبدالملک نے آپ کے تمام سرداروں کو اسی قسم کے خطوط لکھے ہیں ، اگر آپ میری رائے مانتے ہیں ، تو ان تمام سرداروں کو قتل یا قید کر دیں ، مصعب نے اس رائے کو ناپسند فرمایا اور اپنے کسی سردار سے نہ کچھ دریافت کیا، نہ کچھ مواخذہ کیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کا قتل: آخر عبدالملک اپنی مکمل تیاریوں کے بعد شام سے عراق کی جانب فوج لے کر چلا، عبدالملک دمشق سے اس وقت روانہ ہوا جب کہ اس کے پاس رؤسائے کوفہ کے بہت سے خطوط پہنچ چکے تھے کہ آپ کو عراق پر فوراً حملہ آور ہونا چاہیے، عبدالملک کے مشیروں نے روانگی کے وقت اس کو روکا کہ کہیں اہل عراق اور اہل کوفہ کے یہ خطوط اسی قسم کے نہ ہوں جیسے انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو لکھے تھے، عبدالملک نے کہا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ تو محض کوفہ کے بھروسے پر چل دیئے تھے، اور میں ایک زبردست فوج کے ساتھ جا رہا ہوں ، مجھ کو ان کی بدعہدی یا بے وفائی سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور مجھ کو یقین ہے کہ وہ جب مجھ