کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 731
فوجوں کا مدارا نامی گاؤں کے قریب مقابلہ ہوا خوب زور شور کی لڑائی ہوئی، آخر مختار کو شکست ہوئی اور وہ فرار ہو کر کوفہ میں داخل ہوا، قصر امارت کی مضبوطی کر کے محصور ہو بیٹھا۔ میدان جنگ سے جب کوفی لشکر بھاگا تو محمد بن الاشعث نے فراریوں کا تعاقب کیا اور بھاگتے ہوؤں کو دور تک قتل کرتا چلا گیا، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے دارالامارۃ کا محاصرہ کر لیا یہ محاصرہ کئی روز تک جاری رہا، مختار کے ساتھ ایک ہزار آدمی قصر کے اندر محصور تھے، آخر سامان رسد کی کمی سے مجبور ہو کر مختار نے قلعہ کا دروازہ کھولنے اور مقابلہ کر کے مرنے کا ارادہ کیا، اس کے ہمراہیوں نے اس کو منع کیا اور مشورہ دیا کہ مصعب سے جان کی امان طلب کر کے دروازہ کھولو، یقین ہے کہ مصعب بن زبیر ضرور امان دے گا، لیکن مختار نے اس مشورے کو ناپسند کیا، سر میں خوشبودار تیل ڈالا، کپڑوں کو عطر ملا، اور ہتھیار لگا کر قصر سے نکلا، صرف انیس آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا، باقی قصر کے اندر ہی رہے، مختار نے نکل کر حملہ کیا اور طرفہ و طراف پسران عبداللہ بن دجاجہ صیفی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مختار ۱۴ رمضان المبارک ۶۷ھ کو مقتول ہوا، مختار کے ہمرائیوں میں عبیداللہ بن علی بن ابی طالب بھی مقتول ہوئے، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں کو جو قصر امارت کے اندر محصور تھے گرفتار کیا، تمام وہ لوگ بھی جو میدان جنگ میں گرفتار ہوئے تھے کوفہ کے اندر لائے گئے اور ایک وسیع مقام پر ان تمام قیدیوں کو فراہم کر کے ان کی نسبت مشورہ کیا گیا، مہلب بن ابی صفرہ نے کہا کہ ان سب کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن محمد بن الاشعث اورتمام دوسرے کوفیوں نے یہ سن کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس رائے پر عمل کرنے سے منع کیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما حیران تھے کہ میں کیا کروں ، کوفی کہتے تھے، کہ ان لوگوں نے مختار کے ہاتھ پر بیعت کر کے کوفہ میں کوئی گھر ایسا نہیں چھوڑا، جس میں کوئی نہ کوئی آدمی قتل نہ کیا ہو، اگر یہ لوگ اب چھوڑ دیئے گئے تو اسی وقت تمام کوفہ باغی ہو جائے گا، ان لوگوں کی کل تعداد چھ ہزار تھی جن میں صرف سات سو عرب اور باقی ایرانی لوگ تھے، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے آخر سوچ کر یہی فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کو قتل کر دیا جائے، چنانچہ وہ سب قتل کر دیئے گئے اور اہل کوفہ کو اطمینان میسر ہوا، مصعب نے مختار کے دونوں ہاتھ کٹوا کر جامع مسجد کوفہ کے دروازہ پر لٹکا دیئے، جو حجاج کے عہد امارت تک وہاں لٹکے رہے۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کوفہ پر قابض ہو کر ابراہیم بن مالک کو جو موصل پر قابض اور مختار کی طرف سے مامور تھا ایک خط لکھا کہ تم کو اب میری اطاعت کرنی چاہیے، میں تم کو ملک شام کی سند دے دوں گا اور ساتھ ہی وعدہ کرتا ہوں کہ شام سے مغرب کی جانب جس قدر ممالک پر تم قبضہ کرتے چلے جاؤ