کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 730
کر کہا کہ مصعب کو آپ کے سوا اور کوئی قاصد نہیں ملا، انہوں نے کہا کہ میں قاصد نہیں ہوں بلکہ خود اپنی غرض کو آیا ہوں ، کہ کوفہ کے حالات آپ کو سناؤں ، ہمارے غلام زادوں نے ہمارے اموال اور مکانات پر قبضہ کر کے ہم کو بے دخل کر دیا ہے اور مصیبت کے مارے بصرہ کی طرف بھاگ کر آئے ہیں اور فریاد کرتے ہیں کہ اللہ کے لیے ہماری مدد کرو اور مصیبت سے ہم کو نجات دلاؤ۔ مہلب بن ابی صفرہ فارس کے صوبہ کی حکومت اپنے بیٹے مغیرہ بن مہلب کے سپرد اور ملک کا قابل اطمینان بندوبست کر کے بصرہ کی طرف کافی سامان اور لشکر لے کر روانہ ہوا اور مصعب بن زبیر بصرہ میں آکر ملا، مہلب بن ابی صفرہ کے پاس سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا خط بھی براہ راست پہنچ چکا تھا کہ تم بصرہ میں مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ سے آکر ملو اور کوفہ پر حملہ کرو، مہلب کو کسی قدر توقف ہوا تو مصعب کو بصرہ سے قاصد بھیجنا پڑا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما شاید کوفہ پر چڑھائی کرنے میں ابھی اور تامل فرماتے، لیکن مختار نے جب کوفہ میں لوگوں کو بڑی کثرت سے قتل کیا اور یہ بھی مشہور کیا کہ میرے پاس جبرائیل امین آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے اور میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں ، تو لوگ شہر چھوڑ چھوڑ کر بھاگے، کچھ تو بصرہ کی طرف گئے، بعض سیدھے سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچے اور مختار کی نبوت کا حال بھی علاوہ مظالم کے سنایا، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ سن کر کہ مختار نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کے استیصال میں توقف کرنا کسی طرح مناسب نہ سمجھا اور مہلب کو خط لکھا اور مصعب کو تاکید کی کہ بصرہ میں جا کر بغیر مہلب کے آئے ہوئے کوفہ پر حملہ آور نہ ہونا۔ مختار کا قتل اور کوفہ پر قبضہ: جب مہلب آگیا، تو مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کو حکم دیا کہ جبر اکبر پر اپنے لشکر کو مرتب کرو، عبدالرحمن بن احنف کو کوفہ کی طرف روانہ کیا کہ وہاں جا کر قیام کرو اور پوشیدہ طور پر لوگوں سے سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے نام پر بیعت لو، عباد بن حصین حطمی تمیمی کو مقدمۃ الجیش کا افسر بنایا، میمنہ پر عمر بن عبیداللہ بن معمر کو اور میسرہ پر مہلب بن ابی صفرہ کو مامور کیا اور قلب لشکر کی سرداری خود معصب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے پاس رکھی، اس طرح یہ لشکر مرتب ہو کر بصرہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوا۔ مختار کو جب اس فوج کشی کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی فوج لے کر کوفہ سے نکلا، ابراہیم بن مالک اس زمانہ میں موصل کی حکومت پر مامور تھا اور وہ کوفہ نہیں آسکا تھا، بصرہ کی فوج میں ایک دستہ فوج ان لوگوں کا تھا، جو کوفہ سے بھاگ کر بصرہ پہنچے تھے، اس دستہ فوج کی سرداری محمد بن الاشعث کو دی گئی تھی، دونوں