کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 73
خبر دے اس کو عراف کہتے تھے، غیب دانی کا دعویٰ کرنے والے مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی، [1] عرب کے کاہنوں میں افعی ، جزیمہ، ابرش، شق اور سطیح وغیرہ مشہور کاہن تھے، غیب دانوں کی ایک قسم ناظر کہلاتی تھی جو آئینہ، یا پانی سے لبریز طشت پر نظر ڈالتے اور غیب کی باتیں بتاتے، یا حیوانات کی ہڈیوں اور جگر وغیرہ اعضاء کو دیکھ کر حکم لگاتے تھے، انھی میں طارقین حصیٰ (سنگریزہ پھنکنے والے) اور گٹھلیاں پھینکنے والے بھی تھے، یہ سب کاہنوں کی ایک قسم میں شمار ہوتے تھے، مگر ان کا مرتبہ عراف اور کاہن سے کم سمجھا جاتا تھا، ان سے بھی کم رتبہ تعویذ گنڈے والے تھے۔ فال: تفاؤل اور تشاؤم یعنی نیک فالی اور بدفالی کے بھی بہت قائل تھے، کوے کو بہت منحوس اور موجب فراق سمجھتے تھے، عربی زبان میں چونکہ کوے کو غراب کہتے ہیں اس لیے مسافرت کو غربت اور مسافر کو غریب کہنے لگے یعنی کوے کے اثر سے جدائی اور مسافرت میں مبتلا ہوتا ہے۔ الو کو بھی بہت منحوس جانتے تھے، ان کے نزدیک الو کے بولنے سے موت اور ویرانی واقع ہوتی تھی، عطسہ (چھینک) کو بھی موجب بدفالی سمجھتے تھے۔[2] بعض لوگ ساحر تھے وہ جادو گری کا پیشہ کرتے تھے اور شیطان کو اپنا دوست بنانے کے لیے بڑی بڑی ریاضتوں میں مصروف ہوتے تھے۔ جنگ جوئی: ذرا ذرا سی اور بہت ہی معمولی معمولی باتوں پر ان میں جنگ چھڑ جاتی تھی، ایک دفعہ جب لڑائی شروع ہو جاتی تو پھر کئی کئی پشتوں اور صدیوں تک برابر جاری رہتی، ان کی لڑائیوں میں کوئی بھی لڑائی ایسی نہیں ملتی جو کسی معقول اور اہم سبب کی بنا پر شروع ہوئی ہو، عرب جاہلیت کی لڑائیوں میں سو سوا سو لڑائیاں بہت مشہور ہیں ، مثلاً بعاث، کلاب، فترت، نخلہ، قرن، سوبان اور حاطب وغیرہ، ان لڑائیوں سے کسی قبیلہ یا ملک کو کبھی بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا، بلکہ طرفین کو ہمیشہ تباہی و بربادی اور نقصان جان و مال برداشت کرنا پڑا۔ عرب جاہلیت میں ایک یہ رسم بھی تھی کہ جب دشمن پر قابو پا جاتے اور اس کے عیال و اطفال کو قید کر لیتے تو بلا امتیاز اور بلا تکلف سب کو قتل کر دیتے تھے، لیکن قیدیوں میں سے کوئی شخص ان کے کھانے
[1] اس کے برعکس اسلام نے یہ تصور دیا کہ غیب دان صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی ذات ہے۔ وہی اس کائنات کے ہر قسم کے غیب کا علم رکھتا ہے۔ [2] مشرکین و بد عقیدہ لوگوں کا ذہن ایسی پراگندہ سوچوں کا شکار ہو جاتا ہے۔