کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 729
کوفہ پر حملہ کی تیاری: ۶۴ہجری میں سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما قریباً تمام عالم اسلامی کے خلیفہ تسلیم کیے جاتے تھے، اسی سال مصر، فلسطین اورتمام شام کا ملک ان کے دائرہ خلافت سے خارج ہو گیا اور بنو امیہ کی خلافت دوبارہ دمشق میں قائم ہو گئی، ۶۵ ہجری میں بعض صوبوں کے اندر بغاوتیں ہوئیں ، لیکن سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ ضرور تسلیم کیا جاتا رہا اور کوئی صوبہ قبضہ سے نہیں نکلا، ۶۶ھ میں کوفہ اور یمامہ دونوں قبضے سے نکل گئے، کوفہ میں مختار کی حکومت اور یمامہ میں نجدہ بن عامر کی حکومت خود مختارانہ طور پر قائم ہو گئی، بصرہ کو حرث بن ربیعہ نے اور فارس کو مہلب بن ابی صفرہ نے سنبھالے رکھا اور خوارج کے فتنوں کو سر ابھارتے ہی دبا دیا۔ مختار کی طرف سے بصرہ پر ڈورے ڈالے جا رہے تھے اور بصرہ میں عبداللہ بن مطیع سابق گورنر کوفہ اور عمرو بن عبدالرحمن نامزد شدہ گورنر کوفہ بھی موجود تھے، ان دونوں کو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ندامت و شرمندگی تھی، اس لیے بصرہ میں ان دونوں کی موجودگی موجب خطرہ بھی ہو سکتی تھی کہ کہیں کسی سازش میں شریک نہ ہو جائیں ، جب سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ سنا کہ عبیداللہ بن زیاد ابراہیم بن مالک کے مقابلہ میں مقتول ہوچکا ہے، تو ان کو اہل شام اور عبدالملک بن مروان کی طرف سے تو گونہ اطمینان ہوا کہ ان کی طاقت کو ایک بڑا صدمہ پہنچا تھااور وہ جلد حجاز پر حملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں کر سکتے تھے، لیکن بصرہ کے متعلق خطرات بڑھ گئے تھے، کیونکہ مختار بن عبید کی توجہ اس فتح کے بعد بصرہ ہی کی طرف مبذول ہونے والی تھی، لہٰذا انہوں نے فوراً بصرہ کے عامل حرث بن ربیعہ کو معزول کر کے اپنے بھائی مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کو بصرے کی گورنری پر مامور کر کے بھیجا۔ بصرہ میں آج کل کوفہ کے بہت سے آدمی مختار کے خوف سے بھاگ بھاگ کر چلے آئے تھے، یہ سب وہ لوگ تھے جن کو اندیشہ تھا کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے معاوضہ میں مختار ہم کو بھی کہیں قتل نہ کر دے، کوفہ کے ان ہی مفرورین میں شیث بن ربعی اور محمد بن الاشعث بھی تھے، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی حکومت و امارت اپنے ہاتھ میں لے کر حالات کا پر غور مطالعہ شروع کیا، کوفہ سے آئے ہوئے لوگوں نے جن میں بعض بہت معزز اور تجربہ کار شخص بھی تھے مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ کوفہ پر حملہ کرو مصعب نے کہا کہ مجھ کو امیر المومنین عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے حکم دیا ہے کہ مہلب بن ابی صفرہ کو ہمراہ لیے بغیر کوفہ پر حملہ نہ کروں ، لہٰذا سب سے پہلے فارس سے مہلب کو بلوانا چاہیے، چنانچہ مصعب نے ایک خط مہلب کے نام لکھا اور محمد بن الاشعث کے ہاتھ مہلب کے پاس روانہ کیا، مہلب نے محمد بن الاشعث کو دیکھ