کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 728
بڑے سردار اور بہادر لوگ بھیج دیئے گئے، ساتھ ہی وہ تابوت بھی بھیجا گیا جس میں وہ کرسی رکھی تھی، اس تابوت کے بھیجنے سے یہ مدعا تھا کہ فوج کو پہلے ہی سے اپنی فتح کا یقین ہو جائے۔ ابراہیم بن مالک نہایت تیزی سے سرحد عراق کو عبور کر کے حدود موصل میں داخل ہوا جہاں عبیداللہ بن زیادعبدالملک بن مروان کی طرف سے بطور گورنر مامور تھا، عبیداللہ بن زیاد اس لشکر کے آنے کی خبر سن کر موصل سے روانہ ہوا اور نہر خازر کے متصل دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن ہوئے، رات بسر کرنے کے بعد نماز فجر پڑھتے ہی دونوں لشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے، بڑی سخت و خون ریز جنگ ہوئی، اوّل کوفیوں کی طرف آثار ہزیمت نمایاں ہوئے مگر ابراہیم بن مالک کی جرات اور استقامت سے کوفیوں کے پاؤں جم گئے، دونوں طرف کے سرداروں نے بڑی بڑی بہادریاں دکھائیں ، آخر لشکر شام کو شکست ہوئی اور ان کا سپہ سالار اعظم عبیداللہ بن زیاد بھی مارا گیا۔ عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ شامیوں کا دوسرا زبردست سردار حصین بن نمیر بھی شریک بن جدید تغلبی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ لڑائی کے ختم ہونے اور شامیوں کے مقتول و مفرور ہونے کے بعد ابراہیم بن مالک نے کہا کہ نہر کے کنارے علم کے نیچے میں نے ایک شخص کو قتل ہے، جس کے لباس سے مشک کی خوشبو آرہی تھی، میری تلوار نے اس کے دو حصے کر دیئے ہیں جا کر دیکھو کہ وہ کون شخص تھا، لوگ اس طرف گئے اور دیکھا تومعلوم ہوا کہ وہی عبیداللہ بن زیاد ہے، چنانچہ اس کا سر کاٹ کر جسم کو جلا دیا گیا، فتح کی خوشخبری کے ساتھ عبیداللہ بن زیاد کا سر بھی مختار کے پاس کوفہ کی جانب روانہ کیا گیا۔ یمامہ پر نجدہ بن عامر کا قبضہ: نجدہ بن عامر بن عبداللہ بن ساد بن مفرح نے یمامہ کے علاقہ میں شورش و بغاوت کا سلسلہ ۶۵ھ سے شروع کر دیا تھا، لیکن اس نے مصلحتاً اپنی جمعیت کی سرداری خود نہیں قبول کی تھی، بلکہ ابوطالوت نامی ایک شخص کو سردار بنایا تھا، ۶۵ھ میں اس جماعت کو کوئی زیادہ اہمیت حاصل نہ تھی، بجز اس کے قافلوں پر چھاپے مارتے اور مسافروں کے لیے راستوں کو پر خطر بناتے تھے، ۶۶ھ میں ان لوگوں کو یہاں تک تقویت حاصل ہوئی کہ وہ شہروں کو لوٹنے اور غارت کرنے لگے، ابو طالوت کو معزول کر کے نجدہ بن عامر خود امیر جماعت بنا اور ۶۶ھ کے آخری ایام میں وہ یمامہ اور اس کے نواحی علاقہ کا مستقل حکمران بن گیا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ان ایام میں یمامہ کی طرف کوئی فوج نہ بھیج سکے کیونکہ ان کے لیے اس سے زیادہ ضروری اور اہم کام شام و عراق کے متعلق درپیش تھے، لہٰذا نجدہ بن عامر کی فرماں روائی یمامہ پر ۶۹ھ یا ۷۰ھ تک قائم رہی۔