کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 727
پاس بھیج کر فوراً عباس بن سہل بن سعد کو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ متعین کیا کہ اگر کوفہ سے مختار کوئی لشکر بھیجے، تواول یہ معلوم کرو کہ وہ محکوم ہو کر آیا ہے یا خود مختار ہے، اگر محکوم ہو تو اس سے کام لو، اور اگر وہ محکوم ہو کر نہیں آیا تو اس کو واپس کر دو، واپس ہونے سے انکار کرے تو اس کا مقابلہ کرو، مقام قیم میں عباس و شرحبیل کی ملاقات ہوئی، عباس نے کہا تم لوگ مقام وادی القریٰ کی طرف ہمارے ساتھ دشمن کے مقابلہ کو چلو، شرحبیل نے کہا، ہم کو تو سیدھے مدینے جانے کا حکم ہے، وہاں ہم دوسرے حکم کا انتظار کریں گے، تب کہیں جا سکیں گے۔ عباس نے اوّل ان کوفیوں کو کھانے پینے کا سامان دے کر تواضع کی، پھر تعمیل حکم سے انکار کرنے کی پاداش میں حملہ کر کے اپنے دو ہزار آدمیوں سے ان تین ہزار کو مجبور کر دیا اور ستر آدمی قتل کر کے کوفہ کی طرف زبردستی لوٹا دیا، مختار نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا اور محمد بن حنفیہ کو خط لکھ کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی شکایت کی کہ انہوں نے میری فوج کو آپ تک نہ پہنچنے دیا جو آپ کی حفاظت کے لیے میں نے روانہ کی تھی، اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنا ایک معتمد خاص بھیج دیجئے، تاکہ میں اس کے ساتھ ایک زبردست فوج روانہ کر دوں اور لوگوں کو بھی آپ کے فرستادہ کی زیارت سے اطمینان حاصل ہو۔ محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے مصلحتاً جواب لکھا کہ میں تمہاری حق پسندی سے واقف ہوں ، تم مجھ کو گوشہ عافیت میں بیٹھا رہنے دو، اور مخلوق اللہ تعالیٰ کی خون ریزی سے پرہیز کرو، میں اگر حکومت و امارت کا خواہاں ہوتا، تو تم سے زیادہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کر سکتا تھا، لیکن میں نے اپنے تمام دوستوں اور ہواخواہوں کو معطل کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ خود ہی جو چاہے گا فیصلہ کرے گا۔ عبیداللہ بن زیاد کا قتل: اوپر ذکر ہو چکا ہے، بابل کے میدان میں بروز عیدالاضحیٰ ۶۶ھ کوفیوں کے مقابلہ میں شامیوں کو شکست ہوئی تھی، مگر کوفی سپہ سالار ابن زیاد کے آنے کی خبر سن کر پیچھے ہٹ آیا تھا، اس خبر کو سن کر مختار نے اپنے سپہ سالار اعظم ابراہیم بن مالک بن اشتر کو سات ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا تھا، لیکن راستے ہی سے ابراہیم کو کوفہ کی طرف واپس لوٹنا پڑا تھا، کوفہ میں نہایت کثرت سے لوگ قتل کیے گئے اور شیعان علی کی مخالف جماعت یا شیعان علی رضی اللہ عنہ کے سوا جو لوگ تھے ان کو اچھی طرح کچل دیا گیا، جس سے آئندہ کے لیے اس قسم کے خطرے کا سد باب ہو گیا، اس کام سے فارغ ہو کر ۲۲ ذی الحجہ ۶۶ھ کو مختار نے کوفہ سے ابراہیم بن مالک کو پھر اسی مہم پر ابن زیاد کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کیا، اس مرتبہ چونکہ کوفہ کی بغاوت کا کوئی خطرہ قطعاً باقی نہ رہا تھا اور لوگ بہت زیادہ خائف ہو چکے تھے، لہٰذا ابراہیم کے ساتھ تمام بڑے