کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 726
جعدہ کے محلہ میں ایک روغن فروش رہتا تھا، اس کے پاس بھی اسی قسم کی ایک کرسی تھی، جعدہ نے وہ کرسی اس سے خریدی اور پوشیدہ طور پر اپنے گھر لے گیا، اس کو خوب صاف کیا اور بڑے تکلف اور احتیاط کے ساتھ غلافوں میں لپیٹ کر مختار کے پاس لے گیا، مختار نے کرسی لے کر جعدہ کو خوب انعام و اکرام دیا، کرسی کو بوسہ دیا، اس کو سامنے رکھ کر دو رکعت نماز پڑھی، پھر اپنے مریدوں کو جمع کرکے کہا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے تابوت سکینہ کو موجب نصرت و برکت بنایا تھا، اسی طرح شیعان علی رضی اللہ عنہ کے لیے اس کرسی کو نشانی قرار دیا ہے، اب ہم کو ہر جگہ فتح و نصرت حاصل ہو گی۔ اس کے مریدین نے اس کرسی پر آنکھیں ملیں ، بوسے دیئے اوراس کے آگے سر جھکائے، پھر مختار نے حکم دیا کہ ایک تابوت بنایا جائے، چنانچہ نہایت خوب صورت تابوت تیار ہوا اس کے اندر وہ کرسی رکھی گئی، چاندی کاایک قفل اس تابوت میں لگایا گیا اوراس تابوت کی حفاظت کے لیے آدمی متعین کیے گئے۔ جامع مسجد کوفہ میں وہ تابوت رکھا گیا، ہرشخص نماز پڑھنے کے بعد اس تابوت کو بوسہ دیتا تھا، مختار نے کوفہ کی حکومت کرنے سے پہلے ہی اپنے مکرو تنویر کا جال پھیلانا اور اپنی غیر معمولی روحانی طاقتوں کا لوگوں کو معتقد بنانا شروع کر دیا تھا، حکومت کوفہ حاصل کرنے کے بعد اس کی چالاکی و ہوشیاری کو اور بھی زیادہ کامیابی کے مواقع میسر آنے لگے اور رفتہ رفتہ وہ نبوت کے دعووں تک پہنچنے لگا۔ جس زمانہ نے میں مختار نے کوفہ پر قبضہ کیا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو مذکورہ خط لکھا، اسی کے قریب زمانہ میں چند روز کے لیے عبدالملک بن مروان نے، عبدالملک بن الحکم بن ابی العاص کو ایک لشکر دے کر وادی القریٰ کی طرف روانہ کیا، یہ گویا عبدالملک بن مروان کی طرف سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر پہلی چڑھائی تھی۔ اس چڑھائی کا حال سن کر مختار نے دوسرا خط سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو لکھا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کے لیے فوج کوفہ سے روانہ کروں ، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے لکھا کہ اگر تم میرے فرماں بردار و مطیع ہونے کی حیثیت سے فوج روانہ کرتے ہو تو فوراً ایک فوج وادی القریٰ کی طرف بھیج دو، مختار نے شرحبیل بن دوس ہمدانی کو تین ہزار کی جمعیت سے یہ حکم دے کر روانہ کیا کہ سیدھے اوّل مدینہ میں جا کر قیام کرو، پھر وہاں سے حالات لکھ کر مجھ کو بھیجو، اس کے بعد جو حکم بھیجوں اس کی تعمیل کرو، مدعا اس سے مختار کا یہ تھا، کہ میں اس بہانہ سے مدینہ میں فوج بھیج کر محمد بن حنفیہ کی خوشنودی اس طرح حاصل کر سکوں گا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا اور میرا اثر شیعان علی میں ترقی کر سکے گا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما مختار کی ان چالاکیوں کو سمجھتے تھے، انہوں نے مذکورہ جواب مختار کے