کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 725
اپنے قول و اقرار کا لحاظ نہ کر کے اس کا سر اتروا لیا، عمرو بن سعد کا لڑکا حفص بن عمرو مختار کی مصاحبت میں تھا، جس وقت عمرو بن سعد کا سر دربار میں آیا تو مختار نے حفص بن عمرو سے کہا کہ تم اس کو پہچانتے ہو، کس کا سر ہے، حفص نے کہا کہ ہاں میں پہچانتا ہوں ، لیکن اب اس کے بعد زندگی کا لطف جاتا رہا، مختار نے اسی وقت حکم دیا کہ حفص کا سر بھی کاٹ لو۔ چنانچہ حفص کا بھی سر اتار لیا گیا، غرض اس قتل و گرفتاری کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا، لوگ گھروں سے گرفتار ہو کر آتے تھے اور قتل کیے جاتے تھے، عمروبن سعد اور شمر وغیرہ کے سر مختار نے محمد بن حنفیہ کے پاس مدینہ بجھوا دیئے تھے۔ مختار بہت ذی ہوش اور چالاک آدمی تھا، اس نے کوفہ پر قابض و متصرف ہو کر ایک خط سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو لکھا، کہ میں دارالامارۃ کوفہ میں آج کل مقیم ہوں ، مجھ کو دل سے آپ کی اطاعت منظور اور آپ کی خلافت تسلیم ہے، آپ کوفہ کی گورنری مجھ کو عطا کر دیجئے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سمجھ گئے کہ یہ مجھ کو دھوکا دے کر اور اپنی طرف سے غافل رکھ کر حکومت و سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے، انہوں نے مختار کی اطاعت کا امتحان لینے کی غرض سے عمر بن عبدالرحمن بن حرث بن ہشام مخزومی کو کوفہ کی گورنری کا پروانہ دے کر کوفہ کی طرف روانہ کیا، مختار کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے زائد بن قدامہ کو پانچ سو سواروں کے ساتھ ستر ہزار درہم دے کر روانہ کیا کہ راستے ہی میں عمر بن عبدالرحمن کو روک کر اور یہ رقم دے کر واپس کر دو، اگر وہ واپس ہونے سے انکار کرے، تو تم اپنے پانچ سو سواروں سے اس کو گرفتار کر لینا۔ عمر بن عبدالرحمن نے اوّل تو انکار کیا، لیکن پھر پانچ سو سواروں کی جمعیت دیکھ کر مناسب سمجھا، کہ ستر ہزار درم قبول کر لیے جائیں ، چنانچہ ستر ہزار درہم لے کر بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا، عبداللہ بن مطیع بھی بصرہ ہی میں چلا گیا تھا۔ اب عمر بن عبدالرحمن نے بھی بصرہ ہی کا رخ کیا، جہاں حرث بن ابی ربیعہ حکومت کر رہا تھا۔ مختار کا دعویٰ نبوت اور کرسی علی رضی اللہ عنہ : سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب کوفہ میں تشریف رکھتے تھے تو آپ کی ایک کرسی تھی، اسی پر بیٹھ کر اکثر حکم احکام جاری کیا کرتے تھے، آپ کا ایک بھانجا جعدہ بن ہبیرہ جو ام ہانی بنت ابی طالب کا بیٹا تھا کوفہ میں رہا کرتا تھا، وہ کرسی اسی کے قبضہ میں تھی، مختار نے کوفہ میں اپنا قبضہ بٹھا کر اس کرسی کے حاصل کرنے کی کوشش کی، جعدہ نے کہا اچھا مجھے ایک ہفتہ کی مہلت دیجئے کہ میں اس کو تلاش کر کے آپ کی خدمت میں پیش کروں ، مختار نے کہا کہ میں تین دن سے زیادہ مہلت ہر گز نہ دوں گا، اگر اس عرصہ میں تم نے کرسی نہ پہنچائی، تو سختی و تشدد کا برتاؤ شروع کیا جائے گا۔