کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 724
جب مختار کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ میں ہر ایک کام اہل کوفہ کی مرضی کے موافق کرنے کو تیار ہوں اور مال غنیمت میں بھی ان کو حصہ دینے کا اقرار کرتا ہوں ، بشرطیکہ وہ مجھ سے اس بات کا اقرار کریں کہ ہم بنو امیہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے لڑیں گے، یہاں تک کہ دونوں کی طاقت کو نابود کر دیں ، شیث بن ربعی نے کہا اچھا میں اہل کوفہ سے دریافت کر لوں ، شیث بن ربعی مختار کے پاس سے اٹھ کر آیا۔ کوفہ میں کچھ لوگ ایسے تھے، جو مختار کے ہاتھ پر اس کی حکومت سے پہلے ہی بیعت کر چکے تھے، وہ اس کے ہم عقیدہ و ہم خیال تھے ان کے ساتھ مختار بڑی بڑی رعایتیں کرتا تھا، کچھ ایسے تھے جنہوں نے صرف اس کی حکومت کو تسلیم کر کے بیعت اطاعت کی تھی، وہ اس کے ہم خیال اور خون حسین کے مطالبہ میں اس کے ہم نوا نہ تھے، انہیں کو مختار سے شکایات تھیں ۔ چنانچہ شیث بن ربعی کے واپس آنے پر ان لوگوں نے مختار کے خلاف ہجوم کیا اور دارالامارۃ میں پہنچ کر مختار سے کہا کہ ہم نے تم کو معزول کر دیا، تم حکومت چھوڑ کر الگ ہو جاؤ، کیونکہ تم محمد بن حنفیہ کے نائب اور خلیفہ نہیں ہو، مختار نے اس وقت بڑی چالاکی اور دور اندیشی سے کام لیا، لوگوں کو سمجھایا کہ میں تم پر کوئی سختی نہیں کرنا چاہتا، میں نے تم سب کو خون حسین رضی اللہ عنہ بھی معاف کردیا، ہر قسم کی رعایت بھی تم کو دی جائے گی، اس وقت بنو امیہ کا مقابلہ درپیش ہے، تم کو چاہیے کہ ایسے وقت میں فتنہ و فساد برپا نہ کرو، ورنہ نتیجہ اچھا نہ ہو گا، جاؤ سوچو اور خوب غور کرو کہ تم جس کام پر آمادہ ہوئے ہو وہ تمہارے لیے اچھا نتیجہ پیدا نہ کرے گا۔ ان لوگوں کے سرداروں نے اس وقت مختار کی ان باتوں کو منظور کرلیا اور کہا کہ اچھا ہم غور کریں گے، ان کا مدعا یہ تھا کہ ابراہیم بن مالک جو کوفہ سے روانہ ہوا ہے دور چلا جائے اور ہمارے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ ادھر مختار نے بھی ابراہیم کی غیر موجودگی میں اپنی بے بسی کو محسوس کر لیا تھا، لہٰذا اس نے فوراً ایک تیز رفتار سانڈنی پر اپنا قاصد ابراہیم کے پاس بھیجا کہ فوراً اپنے آپ کو کوفہ میں واپس پہنچاؤ اور خود دارالامارۃ میں مضبوطی کر کے بیٹھ گیا، لوگوں نے اگلے روز دارالامارۃ کا محاصرہ کر لیا، تیسرے روز ابراہیم راستے سے لوٹ کر کوفہ میں مع اپنی فوج کے داخل ہوا اور ان لوگوں کو جو مختار کی مخالفت میں اٹھے تھے، قتل کرنا شروع کیا، غرض کوفہ میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس سے ایک دو یا زیادہ آدمی قتل نہ کیے گئے ہوں ۔ مختار نے لوگوں کو جمع کر کے ان تمام لوگوں کی فہرستیں مرتب کرائیں جو ابن زیاد کے لشکر میں قتل حسین رضی اللہ عنہ کے وقت موجود تھے، یا جنہوں نے کسی قسم کا کوئی حصہ میدان کربلا میں لیا تھا، عمرو بن سعد اور شمر ذی الجوشن بھی گرفتار ہو کر مقتول ہوئے، عمرو بن سعد نے مختار سے امن حاصل کر لیا تھا، لیکن مختار نے