کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 723
قیس کودے کو موصل کی طرف رخصت کیا، اسحاق بن مسعود کو مدائن کا علم اور سعد بن حذیفہ بن الیمان کو حلوان کا علم سپرد کیا، عبداللہ بن کامل کو کوفہ کا کوتوال اور شریح کا قاضی کوفہ بنایا، بعد میں شریح کو معزول کر کے عبداللہ بن مالک طائی کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا۔ ہر طرف مختار کے فرستادہ سرداروں کو کامیابی حاصل ہوئی اور لوگوں نے مختار کی حکومت کو تسلیم کر کے بیعت کر لی، صرف موصل پرعبدالرحمن بن سعید کو کوئی قابو نہ ملا، کیونکہ وہاں عبدالملک بن مروان کی طرف سے عبیداللہ بن زیاد بطور گورنر مامور تھا، عبدالرحمن بن سعید نے بجائے موصل کے تکریت میں جاکر قیام کیا اور مختار کو حالات سے اطلاع دی، مختار نے موصل کی مہم یزید بن انس کو سپرد کی اور تین ہزار سوار دے کو موصل کی جانب رخصت کیا، عبیداللہ بن زیاد نے جب یزید بن انس کے آنے کی خبر سنی، تو ربیعہ بن مختار غنوی کو یزید بن انس کے مقابلہ پر روانہ کیا، بابل کے مقام پر دونوں کا مقابلہ ہوا، یہ لڑائی ۹ ذی الحجہ ۶۶ھ کو ہوئی، ربیعہ مارا گیا اور شامی لشکر کو شکست ہوئی۔ شکست خوردہ شامی واپس جا رہے تھے کہ راستے میں عبداللہ بن جملہ خثعمی تین ہزار کی جمعیت سے آتا ہوا ملا، جس کو عبیداللہ بن زیاد نے ربیعہ کی امداد کے لیے روانہ کیا تھا، عبداللہ نے منہزمین کو روک کر اپنے ساتھ لیا اور اگلے دن ۱۰ ذی الحجہ بروز عیدالاضحیٰ کوفی لشکر پر حملہ کیا، اس لڑائی میں بھی کوفیوں کو فتح اور شامیوں کو شکست ہوئی، کوفیوں نے کئی ہزار شامیوں کو گرفتار کیا اور یزید بن انس کے حکم سے قتل کیے گئے، اسی روز شام کے وقت یزید بن انس بھی جو پہلے سے بیمار تھا فوت ہو گیا اور مرتے وقت ورقاء بن عازب کو امیر لشکر بنا گیا۔ اگلے روز ورقہ بن عازب کے جاسوس نے خبر دی کہ عبیداللہ بن زیاد خود مقابلہ پر آنے والا ہے، ورقہ نے عبیداللہ کا نام سنتے ہی بابل سے کوچ کیا اور عراق کی حدود کے اندر واپس آکر قیام کیا اور مختارکو لکھا کہ میرے پاس تھوڑی فوج تھی، لہٰذا میں پیچھے ہٹ آیا ہوں ، اس خبر کو سن کر کوفہ میں لوگوں نے ورقہ کو ملامت سے یاد کیا کہ فتح مند ہو کر شکست یافتوں کا طرز عمل کیوں اختیار کیا گیا، مختار نے کوفہ سے سات ہزار فوج دے کر ابراہیم بن مالک بن اشتر کو روانہ کیا اورحکم دیا کہ یزید بن انس کا تمام لشکر بھی ورقاء کی سرداری سے نکال کر تم اپنے ماتحت کر لینا۔ ابراہیم کے رخصت ہونے کے بعد اہل کوفہ نے شیث بن ربیع کے پاس آکر شکایت کی کہ مختار ہماری پوری پوری قدر دانی نہیں کرتا اور ہمارے حقوق غصب کرتا ہے۔ شیث بن ربعی نے کہا کہ میں مختار سے مل کر گفتگو کر لوں اور دیکھوں کہ وہ کیا جواب دیتا ہے، شیث