کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 721
لہٰذا ہم نے مختار کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، ابراہیم نے کہا کہ اچھا میں خود ہی مختار سے ملوں گا۔ عامر نے واپس آکر یہ حال مختار کو سنایا، مختار اگلے دن پندرہ آدمیوں کوہمراہ لے کر خود ابراہیم بن مالک کے مکان پر پہنچا، اس وقت ابراہیم مصلے پر بیٹھا تھا، مختار نے جاتے ہی کہا کہ تیرا باپ شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے بہت نامور شخص تھا، ہم تجھ کو بھی اپنی جماعت میں سے سمجھتے ہیں ، امام مہدی محمد بن الحنفیہ نے مجھ کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، تجھ کو میرے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ کامیابی کے بعد جو منصب اور عہدہ تو پسند کرے گا، تجھ کو دیا جائے گا، ہمراہیوں نے اس وعدہ کی ضمانت اور تصدیق کی، ابراہیم فوراً اپنے مصلیٰ سے اٹھا اور مختار کو اپنی جگہ بٹھا کر اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور مختار بیعت لے کر واپس چلا آیا، اگلے روز ۱۴ ربیع الاول ۶۶ھ کو رات کے وقت مختار نے ابراہیم بن مالک کے پاس آدمی بھیجا کہ اس وقت ہم خروج کا ارادہ کر چکے ہیں ، تم بھی اپنی جمعیت لے کر ہمارے پاس پہنچو، ابراہیم کے پاس آدھی رات تک اس کی جماعت کے لوگ آ آکر جمع ہوئے۔ ایاس بن مضارب کو جاسوسوں نے یہ خبر دے دی تھی، کہ آج شب میں بغاوت پھوٹنے والی ہے، اس نے عبداللہ بن مطیع کو اطلاع دی ، عبداللہ بن مطیع نے تدبیر پوچھی تو اس نے مشورہ دیا کہ کوفے کے سات محلے ہیں ، ہر محلہ میں پانچ سو آدمیوں کا ایک دستہ متعین کر دیا جائے، کہ جب اس محلہ میں کسی کو رات کے وقت نکلتے دیکھے، گرفتار یا قتل کر دے، چنانچہ اس رائے پر عمل ہوا، اور ہر محلہ میں ایک ایک سردار بھیج دیا گیا کہ راستوں اور سڑکوں پر لوگوں کو جمع نہ ہونے دیں ، اتفاقاً جب ابراہیم اپنی جمعیت کو لے کر مختار کی طرف چلا ہے، تو راستے میں ایاس بن مضارب ہی سے مقابلہ ہو گیا، طرفین سے ایک دوسرے پر حملے ہوئے، اور ایاس بن مضارب ابراہیم کے ہاتھ مارا گیا۔ ادھر مختار کے مکان پر بھی چار ہزار آدمی اس کے گرد جمع ہو چکے تھے، وہاں سرکاری فوج کے دوسرے دستہ سے جنگ چھڑ گئی، ادھر سے ابراہیم لڑتا بھڑتا مختار کے مکان کے قریب پہنچا، ادھر ہر محلے کی فوجیں آگئیں اورمختار کی قیام گاہ کے سامنے جنگ ہونے لگی، ابراہیم نے سرکاری فوج کو شکست دے کر بھگایا، ادھر سے عبداللہ بن مطیع اور تازہ دم فوج لے کر آیا، کبھی ابراہیم و مختار عبداللہ بن مطیع کو دھکیل کر دارالامارۃ میں داخل کر دیتے، کبھی عبداللہ بن مطیع ان کو پیچھے ہٹاتا ہوا کوفے سے باہر نکال دیتا رات بھر یہ لڑائی جاری رہی، جوں جوں لڑائی نے طول کھینچا مختار کی جماعت ترقی کرتی رہی، یعنی لوگ آ آ کر شامل ہوتے رہے، بالآخر عبداللہ بن مطیع کو دارالامارۃ میں محصور ہونا پڑا، مختار نے تین دن محاصرہ جاری رکھا، چونکہ اندر آدمی زیادہ تھے، جگہ تنگ تھی اور کھانے پینے کا سامان بھی نہیں تھا، لہٰذا عبداللہ بن مطیع کسی پوشیدہ