کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 720
ہیں ، وہ اس وقت آنے کے قابل نہیں ہے، کل ان شاء اللہ ضرور حاضر ہو جائے گا۔ مختار نے زید اور حسین کے جاتے ہی اپنے مریدوں یعنی بیعت شدہ لوگوں میں سے خاص خاص اور بااثر لوگوں کو بلوایا اور کہا کہ اب زیادہ توقف اور انتظار کا موقع باقی نہیں ہے، ہم کو فوراً خروج پر آمادہ ہو جانا چاہیے، ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے تابع فرمان ہیں ، جو حکم ہو اس کی تعمیل کے لیے آمادہ ہیں ، لیکن ہم کو ایک ہفتہ کی مہلت ملنی چاہیے، تاکہ ہم اپنے ہتھیاروں کو درست کر لیں اوراپنی جنگی تیاریوں سے فارغ ہو جائیں ، مختار نے کہا کہ عبداللہ بن مطیع مجھ کو ایک ہفتہ کی کہاں مہلت دینے لگا ہے، سعد بن ابی سعد نے کہا کہ آپ مطمئن رہیں اگر عبداللہ بن مطیع نے آپ کو بلا کر قید کر دیا تو ہم بلا تکلف آپ کو جیل خانہ سے نکال لائیں گے، مختار یہ سن کر خاموش ہو گیا، اور لوگوں نے اس کو اس مکان سے لے جا کر ایک دوسرے غیر معروف مکان میں روپوش کر دیا۔ اس کے بعد سعد بن ابی سعد نے اپنے ہم خیال لوگوں سے کہا کہ ہم کو خروج کرنے سے پیشتر یہ تحقیق کر لینا چاہیے، کہ آیا محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے مختار کو اپنا نائب اس کام کے لیے بنایا ہے یا نہیں ؟ اگر واقعی یہ محمد بن حنفیہ کی طرف سے بیعت لینے کے لیے مامور ہے، تو ہم کو بلا تکلف مختار کی ماتحتی میں خروج کرنا چاہیے، اور اگر محمدبن حنیفہ نے مامور نہیں کیا ہے اوراس نے ہم کو دھوکا دیناچاہا ہے تو پھر ہم کو اس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے، چنانچہ اسی وقت سعد بن ابی سعد تین چار اور آدمیوں کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچ کر محمد بن حنفیہ سے دریافت کیا، تو انہوں نے کہا کہ ہاں مختار کو خون حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کی ہم نے اجازت دی ہے، یہ سن کر سعد بن ابی سعد مع ہمراہیوں کے کوفہ میں آیا اور سب کو یہ حال سنایا، اس خبر کے سنتے ہی لوگ مختار کی بیعت اور متابعت پر آمادہ ہو گئے۔ مختار کو جب معلوم ہوا کہ میری بات کی تصدیق ہوگئی ہے، تو وہ بہت خوش ہوا، کہ لوگوں کا شک بھی دور ہو گیا، مختار نے کہا کہ ہم کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے ابراہیم بن مالک بن اشتر کو بھی جو کوفہ کے رؤساء میں شمار ہوتا ہے، ضرور شامل کر لینا چاہیے، چنانچہ مختار کے مریدوں میں سے عامر بن شرحبیل فوراً ابراہیم بن مالک کے پاس گیا اور کہا کہ تیرے باپ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ، اب لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ خون حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ طلب کریں ، چنانچہ ایک معقول جمعیت اس ارادہ پر متفق ہو چکی ہے۔ تجھ کو تو سب سے پہلے اس کام میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ ابراہیم نے کہا کہ میں اس شرط پر لوگوں کا شریک ہو سکتا ہوں کہ مجھ کو امیر بنایا جائے، عامر نے کہا، کہ محمد بن حنفیہ در حقیقت ہمارے امام ہیں اور انہوں نے مختار کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ہے