کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 719
بیٹھے رہو، مختار نے اقرار کر لیا، اور قید سے آزاد ہو کر اپنے گھر آ بیٹھا۔ شیعان حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی اس اچانک آزادی کو اس کی کرامت پر محمول کیا اور اس کے پاس عقیدت و نیاز مندی کے ساتھ آنے جانے لگے، عقیدت مندوں کی یہ آمد و رفت پوشیدہ طور پر ہوتی تھی، کچھ دن اسی حالت میں گزرے، کہ اتنے میں سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن یزید کو معزول کر کے عبداللہ بن مطیع کو کوفہ کی حکومت پر بھیج دیا۔ عبداللہ بن مطیع ۲۵ رمضان ۶۶ھ کو کوفہ پہنچا، اس عزل و نصب کو بھی مختار نے اپنی کرامت پر محمول کیا اور پرانے حاکم کے کوفہ سے چلے جانے کے بعد اپنی پابندی کو توڑ کر اور بھی آزادی برتنی شروع کر دی لوگوں کی آمد و رفت اس کے پاس زیادہ ہونے لگی اور اس کے متبعین کی جماعی حیرت انگیز طور پر ترقی کر گئی، عبداللہ بن مطیع نے ایاس بن ابی مضارب کو کوتوال شہر مقرر کیا تھا، ایاس نے ایک روز عبداللہ بن مطیع گورنر کوفہ سے کہا کہ مختار کی جماعت خطرناک اور بہت طاقتور ہو گئی ہے، مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں یہ خروج نہ کرے، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختار کو بلا کر قید کر دیا جائے، جیسا کہ وہ پہلے بھی قید تھا۔ عبداللہ بن مطیع نے مختار کے چچا زید بن مسعود ثقفی کو حسین بن رافع اژدی کے ہمراہ بھیجا کہ مختار کو ذرا میرے پاس بلا لاؤ، اس سے مجھ کو کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ، یہ دونوں مختار کے پاس گئے اور امیر کوفہ کا پیغام پہنچایا، مختار فوراً کپڑے پہن کر چلنے کے لیے تیار ہونے لگا، زید نے اس وقت یہ آیت پڑھی ﴿وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ ﴾ مختار اس آیت کو سنتے ہی سمجھ گیا کہ زید کا مطلب کیا ہے، اسی وقت بولا، جلدی لحاف لاؤ، مجھ کو جاڑا چڑھ آیا ہے اور لحاف اوڑھ کر پڑ گیا کہ مجھ کو سردی معلوم ہوتی ہے، پھر حسین بن رافع کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھئے میں تو چلنے کے لیے تیار تھا، مگر کیا کروں مجھ پر مرض کا حملہ یکایک ہوا اور اب میں حرکت نہیں کر سکتا، میری تمام حالت جو آپ دیکھ رہے ہیں امیر سے بیان کر دیں ، کل صبح جب حالت درست ہو جائے گی، تو حکم کی تعمیل میں ضرور حاضر ہوں گا۔ یہ دونوں شخص وہاں سے رخصت ہوئے، راستے میں حسین بن رافع نے زید سے کہا کہ تم نے یہ آیت اسی لیے پڑھی تھی کہ مختار امیر کے پاس نہ جائے، ورنہ وہ جانے کے لیے تیار تھا تمہارے روکنے سے رک گیا ہے، اور اس نے محض بہانہ بنایا ہے، یہ کہہ کر حسین نے پھر زید سے کہا کہ تم اطمینان رکھو، اس کا تذکرہ عبداللہ بن مطیع سے نہ کروں گا، کیونکہ ممکن ہے کہ مختار کے ہاتھوں سے مجھ کو کوئی فائدہ پہنچے، عبداللہ بن مطیع کے پاس دونوں نے جا کر کہہ دیا کہ مختار سخت بیمار ہے، ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئے