کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 718
یا غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوا، کہ مصر اور شام مع فلسطین ان کے قبضے سے جاتے رہے اور مروان نے آل مروان کے لیے خلافت کی بنیاد قائم کر دی۔ فتنۂ مختار: مختار بن عبید بن مسعود ثقفی کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ جب سلیمان بن صرد توابین کے گروہ کو لے کر خون حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے کوفہ سے نکلا تو کوفہ کے گورنر نے انتظاماً مختار کو قید کر دیا تھا۔ توابین کے بقیۃ السیف جب کوفہ میں واپس آئے، تو مختار نے جیل خانہ سے تعزیہ کے طور پر ایک خط لکھ کر بھیجا کہ تم لوگ بالکل غم نہ کرو اور مطمئن رہو، اگر میں زندہ رہا تو ضرور تمہارے تمام شہداء اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خون کا عوض قاتلین سے لوں گا، ایک کو بھی نہ چھوڑوں گا اورایسا خون بہاؤں گا کہ لوگوں کو بخت نصر کا زمانہ یاد آجائے گا کہ اس نے بنی اسرائیل کو کس طرح قتل کیا تھا، پھر لکھا تھا کہ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی ہے جو خون حسین رضی اللہ عنہ کا قصاص لینا چاہتا ہو اور وہ اس کام کے لیے مجھ سے عہد کرے۔ اس خط کو رفاعہ بن شداد، مثنی بن مخربہ عبدی، سعد بن حذیفہ بن الیمان، یزید بن انس، احمر بن سمیط حمسی، عبداللہ بن شداد بجلی، عبداللہ بن کامل وغیرہ توابین نے پڑھا اور بے حد مسرور ہوئے کہ اللہ کا شکر ہے ابھی ایک ایسا شخص موجود ہے جو اپنے دل میں خون حسین رضی اللہ عنہ کے لیے اس قدر جوش اوراولولعزمی رکھتا ہے، چنانچہ رفاعہ بن شداد چار پانچ آدمیوں کو لے کر جیل خانہ میں گیا اور اجازت حاصل کرنے کے بعد مختار سے ملا اورکہا کہ ہم آپ کو جیل خانہ توڑ کر نکال لے جائیں گے اور قید سے آزاد کر دیں گے، مختار نے کہا کہ نہیں آپ بالکل تکلیف نہ فرمائیں ، میں خود جب چاہوں آزاد ہو سکتا ہوں اور کوفہ کا گورنر عبداللہ بن یزید مجھ کو آپ ہی رہا کرے گا، ابھی وہ وقت نہیں آیا، تم چند روز اور صبر کرو۔ توابین کے ہزیمت خوردہ واپس آنے سے پہلے مختار ایک خط جیل خانہ ہی سے کسی کے ہاتھ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس روانہ کر چکا تھا، اس میں لکھا تھا، کہ مجھ کو عبداللہ بن یزید حاکم کوفہ نے قید کر رکھا ہے، آپ عبداللہ بن یزید کو میری سفارش کا خط لکھ دیں میں مظلوم ہوں ، آپ کو اللہ تعالیٰ سفارش کا ثواب عطا فرمائے گا، مختار کو یقین تھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ضرور سفارش فرمادیں گے، اور میں قید سے آزاد ہو جاؤں گا، اس حقیقت کو چھپا کر رفاعہ سے اس نے اس انداز میں اپنی رہائی کی نسبت باتیں کیں ، جس سے اس کی کرامت کا سکہ بیٹھے، چنانچہ چند روز کے بعد سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا سفارشی خط عبداللہ بن یزید کے پاس آیا اور اس نے ان کی سفارش کی تکریم میں مختار بن عبید کو جیل خانہ سے بلا کر کہا کہ میں تم کو قید سے آزاد کرتا ہوں ، مگر شرط یہ ہے کہ کسی قسم کی شورش کوفہ میں نہ پھیلاؤ اور اپنے گھر ہی میں