کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 717
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں درست ہے، لیکن اگر غور کرو تو تمام بنی آدم آپس میں رشتہ دار ہیں ، کیونکہ سب آدم و حوا کی اولاد ہیں ۔ عبداللہ اسدی نے کہا کہ میرا نفقہ تمام ہو چکا ہے، یعنی میرے پاس اب خرچ کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا، میں نے تمہارے نفقہ کی کوئی ضمانت نہیں کی تھی۔ عبداللہ اسدی نے کہا میرا اونٹ سردی سے مرا جاتا ہے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تم اس کو کسی گرم مقام میں پہنچا دو، اور اس پر کوئی گرم کپڑا، نمدا، یا کمبل وغیرہ ڈال دو۔ عبداللہ اسدی نے کہا، کہ میں آپ سے مشورہ لینے نہیں آیا تھا، بلکہ کچھ مانگنے آیا تھا، اس اونٹ پر لعنت ہے، جس نے مجھے آپ تک پہنچایا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، اس اونٹ کے سوار پر بھی تو لعنت کہو۔ خلافت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے اہم واقعات: سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت مکہ معظمہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہی سے قائم تھی اور انہوں نے یزید کے عہد حکومت میں مکہ پر کبھی یزید کی حکومت قائم نہیں ہونے دی، یزید کے مرنے پر انہوں نے لوگوں سے بیعت خلافت لی اور بہت جلد شام کے بعض مقامات کے سوا تمام عالم اسلام میں وہ خلیفہ تسلیم کر لیے گئے، اس زمانہ میں ان کو ملک شام کی اس حالت کا جو ان کے موافق پیدا ہو چکی تھی صحیح اندازہ نہیں ہو سکا اور وہ بنی امیہ کی طاقت و قبولیت کا جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے شام میں ان کو حاصل تھی اندازہ کرنے میں غلطی کھا گئے، اگر ان کو بنو قیس اور بنوکلب کی نااتفاقی ورقابت اور اپنی قبولیت کا جو ملک شام میں پیدا ہو چکی تھی، صحیح اندازہ ہو جاتا، تو وہ ضرور ملک شام کا ایک سفر کرتے اور یہ سفر ایسا ہی مفید ثابت ہوتا، جیسا کہ سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا سفر شام عالم اسلام کے لیے مفید ثابت ہوا تھا، اس کے بعد مروان کی خلافت اور بنو امیہ کے اثر و اقتدار کی واپسی ہرگز ظہور میں نہ آتی۔ اگر وہ بجائے مکہ معظمہ کے مدینہ منورہ کو دارالخلافہ بناتے اور وفات یزید کے بعد ہی مدینہ میں چلے آتے تب بھی نسبتاً ملک شام کے قریب ہونے کے سبب شام کواپنے قابو سے نہ نکلنے دیتے، اور ضحاک بن قیس، ظفر بن حارث، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حجدم کو اس طرح مغلوب نہ ہونے دیتے، ان لوگوں کو اگر سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے ذرا سا سہارا اور تھوڑی سی مدد پہنچ جاتی، تو یہ مروان اور حسان بن مالک اور عبیداللہ بن زیاد سے دبنے اور مغلوب ہونے والے ہر گز نہ تھے، بہرحال اس غلطی