کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 716
ابتدائی حالات اور خصائل: آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بن عوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی، آپ کی کنیت ابو خبیب ہے، خود بھی صحابی ہیں اور صحابی کے بیٹے ہیں ، آپ کے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، آپ کی والدہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں ، آپ کی دادی سیّدنا صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لانے سے بیس مہینے کے بعد سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے، آپ مدینہ منورہ میں مہاجرین کی سب سے پہلی اولاد ہیں ، آپ کے پیدا ہونے سے مہاجرین میں غیر معمولی طور پر بہت خوشیاں منائی گئیں ، کیونکہ یہود ان نامسعود نے جب دیکھا کہ ایک مدت تک مہاجرین کے کوئی اولاد مدینہ میں پیدا نہیں ہوئی، تو انہوں نے مشہور کر دیا تھا کہ ہم نے جادو کر دیا ہے، اب مہاجرین کے کوئی اولاد پیدا نہ ہو گی، اسی لیے آپ کے پیدا ہونے سے جس طرح مسلمانوں کو خوشی ہوئی، اسی طرح یہودیوں کو رنج و ملال اور ذلت و ندامت حاصل ہوئی، پیدا ہونے کے بعد ہی آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اپنے منہ میں چبا کر آپ کو چٹائی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما روزے بہت رکھتے اور نمازیں بھی بہت پڑھتے تھے، کبھی ساری ساری رات قیام میں ، کبھی ساری ساری رات رکوع میں ، کبھی ساری ساری رات سجدے میں پڑے رہتے تھے، صلہ رحمی کا آپ کو بہت خیال تھا، آپ بہت بڑے بہادر اور زبردست سپہ سالار تھے، آپ کی شہ سواری قریش میں ضرب المثل اور موجب افتخار تھی، آپ نہایت مستقل مزاج اور مصائب کے وقت قائم رہنے والے شخص تھے، آپ نہایت خوش تقریر اور جہیر الصوت تھے آپ کی آواز پہاڑوں سے جا کر ٹکرایا کرتی تھی۔ عمر بن قیس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس سو غلام تھے جن میں سے ہر ایک کی زبان جدا جدا تھی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اسی کی زبان میں باتیں کیا کرتے تھے، ان ہی کا قول ہے کہ جب میں عبداللہ بن زبیر کو کوئی دین کا کام کرتے ہوئے دیکھتا تو خیال کرتا تھا، کہ ان کو کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی دنیا یاد نہ آتی ہو گی۔ ایک روز عبداللہ بن زبیر اسدی سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہا کہ امیر المومنین! میں اور آپ فلاں سلسلہ سے رشتہ دار ہیں ۔