کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 711
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اس معاملہ میں بڑی غلطی ہوئی کہ انہوں نے ملک شام کے ان واقعات و حالات سے جو ان کے موافق پیدا ہو چکے تھے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور عین وقت پر اپنے ہوا خواہوں کو کوئی امداد روانہ نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے بھائی مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شام کے ملک پر حملہ کرنے کی ہدایت کی لیکن اس وقت جب کہ موقع ہاتھ سے جاتا رہا تھا اور ان کے طرف داروں کی ہمتیں شام میں پست ہو چکی تھیں ۔ جنگ توابیض: اوپر بیان ہو چکا ہے کہ رمضان ۴۶ھ میں عبداللہ بن یزید انصاری عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے کوفہ کا حاکم مقرر ہو کر آیا اور انہیں ایام میں مختار بن ابو عبید بھی کوفہ میں آیا، مختار نے کوفہ میں آکر لوگوں کو خون حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ لینے کے لیے ابھارنا شروع کیا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی اس کام کے لیے سلیمان بن صرد کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں ، لیکن ابھی اس کام کے لیے مناسب موقع نہیں آیا ہے۔ مختار نے کہا کہ سلیمان ایک پست ہمت آدمی ہے وہ لڑائی سے جی چراتا ہے، مجھ کو امام مہدی محمد بن الحنفیہ برادر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کرو اور خون حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ ان کے قاتلین سے لو، لوگ یہ سن کر مختار کے ہاتھ پر بیعت ہونے لگے۔ یہ خبر جب عبداللہ بن یزید کو پہنچی، تو انہوں نے اعلان کیا کہ اگر مختار اور اس کے معاونین خون حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے لینا چاہتے ہیں تو اس کام میں ہم بھی ان کی مدد کرنے کو تیار ہیں ، لیکن اگر وہ کوئی کاروائی ہمارے خلاف کرنے کا عزم رکھتے ہیں ، تو ہم انکا مقابلہ کر کے ان کو قرار واقعی سزا دیں گے، اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ سلیمان بن صرد اور اس کے ہمراہیوں نے علانیہ ہتھیار خریدنے شروع کر دیئے اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے اور یکم ماہ ربیع الثانی ۶۵ھ کو سلیمان بن صرد نے کوفہ سے نکل کر مقام نخیلہ میں قیام کیا اور سترہ ہزار آدمی اس کے گرد جمع ہو گئے، عبداللہ بن یزید گورنر کوفہ نے مخالفت نہیں کی۔ مختار چونکہ اپنی الگ جماعت کے تیار کرنے میں مصروف تھا، حالاں کہ مقصد سلیمان بن صرد کا بھی وہی تھا جو مختار ظاہر کرتا تھا، لہٰذا بعض شرفائے کوفہ کی تحریک سے عبداللہ بن یزید نے مختار کو پکڑ کر قید کر دیا۔ سلیمان بن صرد ۵ ربیع الثانی کو نخیلہ سے سترہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ حدود شام کی طرف روانہ ہوا، روانگی کے وقت عبداللہ بن سعد بن نفیل نے سلیمان سے کہا کہ قریباً تمام قاتلین حسین رضی اللہ عنہ تو کوفہ