کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 710
یہ لڑائی در حقیقت بنو کلب اور بنو قیس کی لڑائی تھی، ان دونوں قبیلوں میں عہد جاہلیت سے رقابت چلی آتی تھی، اسلام نے اس رقابت کو بھلا دیا تھا اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں قبیلوں سے بڑی قابلیت کے ساتھ کام لیا اور ان کی آپس کی رقابتوں کو دبائے رکھا تھا، یزید کی شادی بھی انہوں نے بنو کلب میں اسی لیے کی تھی کہ ایک زبردست قبیلے کی حمایت اس کو حاصل رہے، بنو قیس کی تعداد بنو کلب سے بھی زیادہ تھی، ان کی مدارات و دل جوئی کا بھی خاص طور سے لحاظ رکھا جاتا تھا، یہی دونوں قبیلے ملک شام کی سب سے بڑی طاقت سمجھے جاتے تھے، جس طرح سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بنو امیہ اور بنو ہاشم کی دیرینہ رقابت پھر تازہ ہو گئی تھی، اسی طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بنو قیس اور بنو کلب کی فراموش شدہ رقابت از سر نو بیدار ہو گئی اورجنگ مرج راہط نے اس رقابت کو تادیر اور ہمیشہ باقی رہنے والی عداوت و دشمنی کی شکل میں تبدیل کر کے مقاصد اسلامی کو عالم اسلام میں سخت نقصان پہنچایا۔ جس زمانے میں معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد دمشق میں انتخاب خلیفہ کے متعلق اختلاف آراء اور بنو کلب و بنو قیس کے درمیان رقابتیں آشکارا ہونے لگی تھیں ، تو مروان بن حکم نے یہ دیکھ کر کہ عراق و مصر اور شام کا بھی بڑا حصہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو تسلیم کر چکا ہے ارادہ کیا کہ دمشق سے روانہ ہو کر مکہ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کر لے اور خلافت تسلیم کرنے میں زیادہ دیر نہ لگائے، چنانچہ جامع دمشق میں جب لوگوں کے اندر فساد برپا ہوا، تو مروان بن حکم بنو امیہ کی خلافت سے قطعاً مایوس ہو کر مکہ کے سفر کا سامان درست کر چکا تھا، کہ اتنے میں عبیداللہ بن زیاد دمشق میں وارد ہوا اور مروان بن حکم کے ارادے سے واقف ہو کر اس نے مروان کو باصرار روانگی سے باز رکھا اور اسی کی کوشش کا نتیجہ تھا کہ مروان کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی اور اسی کی تدبیر سے مرج راہط میں ضحاک بن قیس قتل اور بنو قیس کو شکست ہوئی۔ مروان کا یزید کی بیوہ سے نکاح : مرج راہط کی فتح کے بعد مروان دمشق میں آیا اور یزید بن معاویہ کے محل میں فروکش ہوا، یہاں آتے ہی اس نے ابن زیاد کے مشورے کے موافق سب سے پیشتر خالد بن یزید کی ماں ام ہاشم کے ساتھ نکاح کیا، تاکہ بنوکلب کی حمایت حاصل رہے اور آئندہ خالد بن یزید کی ولی عہدی کے اندیشے سے نجات حاصل ہو سکے، اس کے بعد اس نے فلسطین و مصر کی جانب کوچ کیا اور ۶۵ھ کے ابتدائی ایام میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے تمام ہوا خواہوں کو شکست دے کر قتل یا ملک سے خارج کر دیا۔