کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 709
لوگ مائل تھے۔ مروان نے در پردہ لوگوں کو اپنی خلافت کے لیے ترغیب دینی شروع کی اور روح بن زنباع نے مروان کے حسب منشاء آمادہ ہو کر ایک روز مجمع عام میں کھڑے ہو کر اپنی رائے اس طرح پیش کی کہ’’خالد بن یزید ابھی نو عمر ہے، ہم کو ایک تجربہ کار اور ہوشیار خلیفہ کی ضرورت ہے، لہٰذا مروان بن حکم سے بہتر کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے، وہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر آج تک برابر خلافت و حکومت کے کاموں کا تجربہ رکھتا ہے، مناسب یہ ہے کہ ہم مروان بن حکم کو خلیفہ منتخب کر لیں ، مگر اس شرط کے ساتھ کہ مروان کے بعد خالد بن یزید خلیفہ بنایا جائے اور خالد بن یزید کے بعد عمرو بن سعید بن عاص کو خلافت سپرد کی جائے۔‘‘ شام میں مروان بن حکم کی بیعت : غرض انتخاب خلیفہ کا مسئلہ چالیس روز تک مقام جابیہ میں زیر بحث رہا، بالآخر روح بن زنباع کی مذکورہ تجویز عبیداللہ بن زیاد کی تائید و کوشش سے منظور ہوئی اور ۳ ذیقعدہ ۶۴ھ کو مقام جابیہ میں مروان کے ہاتھ پر بنو امیہ، بنو کلب اور غسان وطے وغیرہ قبائل نے بیعت کر لی۔ اس بیعت کے بعد مروان بن حکم اپنی جمعیت کو لے کر مرج راہط کی طرف بڑھا اور ضحاک بن قیس کے مقابل جا کر خیمہ زن ہوا، مروان کے پاس کل تیرہ ہزار جنگ جو تھے، ادھر ضحاک کے پاس اس سے چوگنی جمعیت فراہم ہو چکی تھی، طرفین نے اپنے اپنے میمنہ و میسرہ کو درست کر کے لڑائی کا سلسلہ شروع کیا، بیس روز تک لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، مگر کوئی فیصلہ کن جنگ نہ ہوئی، آخر عبیداللہ بن زیاد نے مروان بن حکم کو اپنی فوج کی قلت کی طرف توجہ دلا کر مشورہ دیا کہ دشمنوں پر شب خون مارنا چاہیے۔ چونکہ بیس روز سے طرفین برابر صف آراء ہوتے رہے تھے اور کسی نے کسی پر شب خون مارنے کا ارادہ نہیں کیا تھا، لہٰذا ضحاک اور ان کی فوج بے فکر تھی، اس پر مستزادیہ کہ مروان نے دن میں ضحاک کے پاس صلح کا پیغام بھیج کر استدعا کی کہ لڑائی کو بند کر دیجئے اور شرائط صلح کے طے ہونے تک کوئی کسی پر حملہ آور نہ ہو، اسی قرارداد کے موافق لڑائی بند ہو گئی۔ غروب آفتاب کے بعد جب رات شروع ہوئی، تو ابن زیاد کی تجویز کے موافق شب خون کی تیاری ہونے لگی اور وہاں بالکل فارغ و مطمئن ہو کر ضحاک اور ان کی فوج مصروف خواب ہوئی، آدھی رات کے وقت انہوں نے کئی جانب سے حملہ شروع کیا، اس اچانک حملے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنو قیس کے اسی سردار اور بنو سلیم کے چھ سو آدمی مقتول ہوئے، ضحاک بن قیس بھی کام آئے اور بقیۃ السیف جس طرف کو منہ اٹھا بھاگ نکلے۔