کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 708
جمعہ کے دن پڑھا گیا۔
یہاں پہلے ہی ضحاک بن قیس کے ہم خیال لوگوں کی کافی تعداد موجود تھی، اس خط کے سنتے ہی لوگوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک بنی امیہ اور ان کے طرفدار، دوسرے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے طرف دار، دونوں گروہ آپس میں الجھنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہتھیار لے لے کر ایک دوسرے پر حملہ آوری کے لیے تیار ہو گئے، مگر خالد بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیچ میں آکر دونوں کو سمجھایااور لڑائی سے باز رکھا، ضحاک بن قیس خاموش مسجد سے اٹھ کر دارالامارت میں آئے اور تین دن تک باہر نہ نکلے۔
ان ہی ایام میں عبیداللہ بن زیاد جو عراق سے مایوس و بے دخل ہو کر شام کی طرف بھاگا تھا، دمشق میں پہنچا، عبیداللہ بن زیاد کے دمشق پہنچنے سے بنی امیہ اور ان کی طرف داروں کو بہت تقویت پہنچی، ضحاک بن قیس اور بنی امیہ سب مل کر جابیہ کی طرف نکلے، ثور بن معن سلمی ضحاک کے پاس پہنچا اور کہا کہ تم نے ہم کو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت کے لیے مشورہ دیا اور ہم نے اس کو تسلیم کیا، اب تم حسان بن مالک کلبی کے کہنے سے اس کے بھانجے خالد بن یزید کی بیعت کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہو، ضحاک کچھ شرما سے گئے اور ثور بن معن سے کہا کہ اچھا اب تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا کہ اب تک تم نے جس چیز کو پوشیدہ رکھا ہے اسے ظاہر کر دو اورعلانیہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت کے لیے لوگوں کو دعوت دو، چنانچہ ضحاک اپنے ہم خیال لوگوں کو لے کر الگ ہو گئے اور مقام مرج راہط میں جا کر قیام کیا۔
بنو امیہ اور ان کے طرف دار بنو کلب مقام جابیہ میں مقیم رہے، یہیں حسان بن مالک کلبی بھی اردن سے مع اپنی جمعیت کے پہنچ گیا تھا، جابیہ میں پانچ ہزار بنو امیہ اور بنو کلب جمع ہو گئے تھے، مرج راہط میں ضحاک بن قیس کے پاس کل ایک ہزار بنو قیس تھے، ضحاک بن قیس نے دمشق میں جو اپنا نائب چھوڑاتھا اس کو یزید بن انیس نے بے دخل کر کے بیت المال پر قبضہ کر لیا، یہ درحقیقت ایک بڑی شکست ضحاک کو پہنچی، اگر دمشق اور بیت المال ضحاک کے قبضہ میں رہتا، تو ان کی طاقت کو اس قدر صدمہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔
ضحاک نے مرج راہط سے فوراً نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما ، ظفر بن حارث اور نائل بن قیس کو حمص، قنسرین اور فلسطین میں حالات کی اطلاع دی، ان لوگوں نے ضحاک کی امداد کے لیے مرج راہط کی طرف فوجیں روانہ کیں ۔
ادھر جابیہ میں حسان بن مالک نے امامت کی خدمات انجام دینی شروع کیں اور یہ مسئلہ پیش ہوا کہ پہلے اپنا ایک امیر اور خلیفہ منتخب کر لو، عام طور پر خالد بن یزید ہی کا نام لیا جاتا تھا اور اسی کی طرف زیادہ