کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 705
یزید کی وفات کا حال سن کر شیعان علی رضی اللہ عنہ نے سلیمان بن صرد سے کہا کہ اب مناسب موقع ہے، آپ خروج کیجئے۔ لیکن سلیمان نے ان کو اس ارادے سے باز رکھا اور کہا کہ اہل کوفہ کی ایک بڑی تعداد ایسی باقی ہے جو ہماری ہم خیال اور شریک کار نہیں ہے، مناسب یہ ہے کہ ابھی چند روز تک اور اندر اندر اپنی کوششوں کو جاری رکھو اور اپنی جمعیت اور طاقت بڑھاؤ۔ ابن زیاد کو صاف جواب دینے کے بعد اہل کوفہ نے عمرو بن حرث کو جو ابن زیاد کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا نکال دیا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو تسلیم کر لیا، عبداللہ بن زبیر کی طرف سے عبداللہ بن یزید انصاری کوفہ کے گورنر اورابراہیم بن محمد بن طلحہ محصل خراج مقرر ہو کر آگئے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے گورنر کی آمد سے ایک ہفتہ پیشتر مختار بن ابو عبید بھی جو محمد بن الحنفیہ کے پاس گیا ہوا تھا، واپس کوفہ میں آیا، یہ رمضان ۶۴ھ کا واقعہ ہے۔ بصرہ والوں نے بھی ابن زیاد کے چلے جانے پر عبداللہ بن حرث کو اپنا سردار بنا لیا اور پھر اہل کوفہ کی تقلید میں اپنا ایک وفد بھیج کر سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو تسلیم کر لیا، اس طرح تمام ملک عراق پر بھی سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت مسلم اور قائم ہو گئی۔ مصر میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت : مصر کا حاکم عبدالرحمن بن خجدم تھا، اس نے جب معاویہ بن یزید کے انتقال کی خبر سنی تو فوراً بذریعہ وفد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت کی۔ حمص کے گورنر نعمان بن بشیر اور قنسرین کے حاکم ظفر بن حارث تھے، ان دونوں نے بھی معاویہ بن یزید کی وفات کا حال سن کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہی کی خلافت کو تسلیم کرنا مناسب سمجھا۔ معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد چونکہ جلد خلیفہ کا انتخاب نہیں ہو سکا تھا، لہٰذا اہل دمشق نے ضحاک بن قیس کے ہاتھ پر اس اقرار کے ساتھ بیعت کی تھی کہ جب تک مسلمانوں کا کوئی امیر اور خلیفہ منتخب و متعین ہو، اس وقت تک ہم آپ کو اپنا امیر و امام مانیں گے اور آپ کے احکام کی فرماں برداری کریں گے۔ یہ ضحاک بن قیس بھی خلافت کے لیے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہی کو سب سے بہتر سمجھتے تھے۔ فلسطین کا گورنر حسان بن مالک تھا، وہ البتہ اس امر کا خواہاں تھا کہ آئندہ بھی جو خلیفہ منتخب ہو وہ بنی امیہ میں سے ہو۔ غرض معاویہ بن یزید کی وفات پر تمام عالم اسلام سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلافت پر متفق ہو چکا تھا اور بنی امیہ کے سوا باقی تمام با اثر اشخاص وراثت کو خلافت سے مٹانے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو