کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 701
وجہ سے سرزد ہوئی، مگر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی غلطی ان سے بھی بڑی ہے، کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خیال مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہی کی تحریک پر پیدا ہوا تھا، لیکن یزید نے اس منصب کو حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو خلافت کا اہل ثابت نہیں کیا، وہ خوب جانتا تھا کہ اس زمانے میں ایسے بزرگ موجود ہیں جو اپنی پاکیزہ سیرت، بلند اخلاقی، عبادت و ریاضت اور عملی زندگی اورقوت ایمانی کی وجہ سے آفتاب سمجھے جاتے ہیں ، بجائے اس کے کہ وہ اپنی حکومت کا نظم و نسق ان بزرگوں کے مشورے سے چلاتا، اس نے خلافت کے حاصل کرتے ہی اپنے ظلم و استبداد کی چکی کو تیز سے تیز تر کر دیا، اس نے مدینہ اور مکہ میں اس وقت جتنے بزرگ موجود تھے، مثلاً سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزرگوں سے بیعت لینے کے لیے وہاں کے عاملوں کے نام احکام جاری کیے کہ ان سب سے میری بیعت لی جائے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جب اس کا یہ پیغام پہنچا، تو جناب عالی مقام جیسی مقدس شخصیت اس کے ہاتھ پر بیعت کیسے کر سکتی تھی، کیونکہ اوّل تو اس کا انتخاب ہی غیر شرعی طریقہ پر ہوا تھا اور اس کی حکومت ایک غیر شرعی حکومت تھی، دوسرے یہ کہ وہ اپنے اعمال و کردار کے اعتبار سے بھی اس قدر گرا ہوا تھا کہ وہ ہمیشہ لہو و لعب اور سیر و شکار میں مصروف رہتا تھا، خواجہ سراؤں کو اس نے اپنی خدمت گزاری پر مامور کیا تھا، رقص و سرود کی محفلوں میں وہ بے محابا شریک ہوتا تھا، یہ اور اس قسم کے بہت سے عیوب اس میں تھے، وہ کسی طرح بھی اس قابل نہیں تھا کہ اسے ایک منٹ کے لیے بھی مسلمانوں کا خلیفہ یا سردار تسلیم کیا جائے، تو ان حالات میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اس کو کیسے خلیفہ تسلیم کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کر سکتے تھے۔ یہ تھے وہ محرکات جس کی وجہ سے سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزیدی حکومت کے نظام باطل کی مخالفت کی اور ظلم و استبداد اور باطل حکومت کے خلاف آپ نے اپنے عمل سے ایک ایسی شمع روشن کی کہ جس کی روشنی میں قیامت تک حق پرستوں کے قافلے آگے بڑھتے رہیں گے۔ چنانچہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو اپنے مختلف خطبوں میں جو آپ نے میدان کربلا اور دوران سفر کربلا میں دیئے تھے بیان فرمایا، مقام بیضہ میں آپ نے حر کے ساتھیوں اور اپنے ہمرائیوں کے سامنے ایک خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:’’لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ایسے بادشاہ کو دیکھا جو ظالم ہے، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرتا ہے، اللہ کے عہد کو توڑتا ہے، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے اور دیکھنے والے کواس پر اپنے عمل اور قول سے غیرت نہ آئی، تو اللہ کو یہ حق ہے کہ اس بادشاہ کی بجائے اس دیکھنے والے کو جہنم میں داخل کر دے، تم اچھی طرح سمجھ لو کہ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت قبول کر لی