کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 70
تھے، اس امن و امان کی مدت مقررہ میں تمام لڑائیاں ملتوی ہو جاتی تھیں ، انہی ایام میں خانہ کعبہ کے حج اور زیارت کو جاتے انہی ایام میں بڑے بڑے میلے لگتے اور مشاعرے منعقد ہوتے، انہی ایام میں تجارتی کاروبار کی سہولتیں بھی بہم پہنچا لیتے تھے۔ مندرجہ بالا سطور سے اہل عرب کی خوبیوں اور ان کے اخلاق فاضلہ کا اندازہ ہو سکتا ہے، پس یہی خوبیاں ان کے اندر موجود تھیں جو مذکورہ بیان میں سب کی سب ظاہر کر دی ہیں ، اب ان کے دوسرے پہلو کا بھی معائنہ کرنا چاہیے۔ دین و مذہب: ظہور اسلام سے پیشتر اہل عرب کے دین و مذہب کی یہ حالت تھی کہ بعض قبائل نہ خالق کے قائل تھے نہ جزا و سزا کے ، بعض خالق کو مانتے تھے، لیکن جزا و سزا اور قیامت کے منکر تھے، زیادہ تعداد میں بت پرست اور ستارہ پرست تھے، بعض قبائل میں آتش پرستی بھی رائج تھی، خانہ کعبہ کو بت پرستی کا مرکز بنا رکھا تھا اور تین سو ساٹھ بت کعبہ میں رکھ چھوڑے تھے۔ شام کی طرف سے آ کر مدینہ اور اس کے نواح میں کچھ یہودی بھی آباد ہو گئے تھے اور یہودیوں کی یہ آبادی سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے چند روز بعد ہی سے تھی، ان یہودیوں میں بنی قریظہ، بنی نضیر اور بنی قینقاع وغیرہ مشہور قبائل تھے، کچھ عیسائی بھی ملک عرب میں آباد تھے، غسان اور نجران میں عیسائی لوگ آباد تھے، کچھ لوگ قبیلہ قضاعہ کے بھی عیسائی ہو گئے تھے۔ بت پرستی: بت پرستی ملک عرب میں ہر جگہ علانیہ ہوتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو سال قبل شاپور بادشاہ فارس کے زمانہ میں عمرو بن لحی بن حارثہ بن امرء القیس بن ثعلبہ بن مازن بن ازدبن کہلان بن بابلیون بن سبا نے جو حجاز کا بادشاہ تھا سب سے پہلے خانہ کعبہ کی چھت پر ہبل نامی بت رکھا اور مقام زمزم پر اساف اور نائلہ دو بت رکھے اور لوگوں کو ان کے پوجنے کی ترغیب دی، یہ عمروبن لحی قیامت کا منکر تھا۔ یغوث، یعوق، نسر، ود اور سواع وغیرہ بہت سے بت تھے جو قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے، یعنی ہر قبیلہ اپنا جدا بت رکھتا تھا، ود مرد کی صورت تھا، نائلہ عورت کی صورت، سواع بھی عورت کی صورت پر تھا یغوث شیر کی شکل تھا، یعوق گھوڑے کی اور نسر گدھ کی صورت پر تھا، [1] طسم اور جدیس دونوں کا ایک بت
[1] کس قدر جہالت کی انتہا تھی کہ وہ لوگ ایک اکیلے الٰہ، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مرد، عورت، شیر، گھوڑے اور گدھ کی صورتوں والے بتوں کی پوجا کرتے تھے جن کو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوتا تھا۔ انسانی عقل و بصیرت کی موت واقع ہو جانے پر انسانوں نے یہی کچھ کیا ہے۔