کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 698
عقبہ کی شہادت: ساحل سمندر سے ہٹ کر عقبہ نے قیروان کی جانب واپسی کا ارادہ کیا، اب تمام شمالی افریقہ فتوحات اسلامی میں شامل ہو چکا تھا، واپسی میں عقبہ نے فوج کے کئی حصے کر کے الگ الگ روانہ کیے، اور ایک حصہ اپنی معیت میں رکھا، سفر میں ایک مقام ایسا آیا کہ وہاں پانی دستیاب نہ ہوا، لوگ پیاس کے مارے مرنے لگے، عقبہ بن نافع نے جناب الٰہی میں دعا کی، اسی وقت ان کا گھوڑا اپنا پاؤں زمین پر مارنے لگا اور وہیں سے چشمہ پھوٹ کر پانی بہنے لگا، تمام لشکر سیراب ہوا، اور اس چشمہ کانام ماء الفرس مشہور ہوا، جو آج تک اسی نام سے مشہور ہے۔ وہاں سے جب عقبہ اپنے چھوٹے لشکر کے ساتھ روانہ ہو کر مقام تہوذا میں پہنچے تو رومیوں اور بربریوں نے ان کے ساتھ تھوڑی سی جمعیت دیکھ کر مقابلہ کا ارادہ کیا، حالانکہ یہ سب مطیع و منقاد ہو چکے تھے، کسیلہ نے جو عقبہ کے ساتھ تھا اس موقع کو مناسب سمجھ کر اور جدا ہو کر رومیوں کی شرکت اختیار کی، اپنی قوم کی ہمت کو بھی بڑھایا اور ایک لشکر عظیم چڑھا لایا اور چاروں طرف سے اس قلیل جمعیت کو گھیر لیا، مٹھی بھر مسلمانوں نے تلواریں سونت لیں اور دشمنوں کو قتل کرنے میں مصروف ہو گئے، بہت سے رومیوں اور بربریوں کو تلوار کے گھاٹ اتار کر لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے اور خود بھی ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور سیّدنا عقبہ بن نافع کی آرزوئے شہادت پوری ہوئی۔ کسیلہ عقبہ کی شہادت کے بعد اپنا لشکر عظیم لیے ہوئے قیروان کی طرف بڑھا، قیروان میں جب عقبہ کے شہید ہونے اور لشکر عظیم کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی تو زہیر بن قیس نے مقابلہ کی تیاری کی، لیکن فوج کے اندر آپس میں اختلاف اور نا اتفاقی پیدا ہو گئی، زہیر بن قیس مشکلات پر غالب نہ آسکے، مجبوراً مسلمانوں کو قیروان چھوڑ کر برقہ کی طرف آنا پڑا اور کسیلہ قیروان پر قابض و متصرف ہو گیا۔ یزید کی سلطنت پر ایک نظر : یزید کی سلطنت تقریباً پونے چار سال رہی، اس کے دور حکومت میں افریقی فتوحات کے علاوہ مسلمانوں کو کوئی خاص فتح و کامیابی حاصل نہیں ہوئی، بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیس سالہ حکومت وخلافت کے بعد اندرونی جھگڑوں اور بیرونی اقوام کی طرف سے غافل ہونے کا زمانہ شروع ہو گیا، یزید کے دامن پر سب سے بڑا داغ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے، جس نے اس کے اور دوسرے معائب کو بھی نمایاں کر دیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ اگر ہمیں تحقیق حق منظور ہے تو سکون قلب کے ساتھ واقعات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش میں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ ان تمام مظالم اور ناشدنی برتاؤ کے جو