کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 697
کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے، یزید نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی عقبہ کو افریقہ کی سپہ سالاری پر نامزد کر کے افریقہ کی طرف روانہ کیا۔ عقبہ نے قیروان پہنچ کر ابو المہاجر کو گرفتار کر کے قید کر دیا، اس قید و بند کا سبب یہ تھا کہ ابو المہاجر نے اپنے عہد حکومت میں عقبہ کو ناجائز طور پر برا کہنے اور بدنام کرنے کی کوشش کی تھی، اسی حالت قید میں ابوالمہاجر فوت ہوا اور مرنے سے پہلے عقبہ بن نافع کو وصیت کر گیا کہ ایک بربری نو مسلم مسمی کسیلہ سے ہوشیار رہنا، کسیلہ کو ابو المہاجر نے مسلمان کیا تھا اور وہ اس کے مزاج و عادات سے واقف ہونے کی وجہ سے جانتا تھا کہ عقبہ نے چونکہ مجھ کو قید کیا ہے، اس لیے کسیلہ موقع پا کر ضرور عقبہ سے انتقام لے گا، عقبہ بن نافع نے اس بات کی طرف کچھ زیادہ توجہ نہ کی اور کسیلہ کو بدستور اپنی فوج کے ایک چھوٹے حصہ پر سردار رہنے دیا۔ بحر ظلمات تک اسلامی لشکر کی مسلسل یلغار : ۶۲ھ میں عقبہ بن نافع نے اپنے بیٹوں کو بلا کر وصیت کی اور کہا کہ میں راہ اللہ تعالیٰ میں جہاد کی غرض سے روانہ ہوتا ہوں اور دل سے خواہشمند ہوں کہ مجھ کو درجہ شہادت حاصل ہو اس کے بعد زہیر بن قیس بلوی کو مختصر فوج کے ساتھ قیروان کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر اور خود مجاہدین کا لشکر لے کر مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر باغانہ پر رومی لشکر سے مقابلہ ہوا، سخت لڑائی کے بعد رومی فرار ہوئے۔ پھر شہر اربہ پر رومیوں نے دوبارہ سخت مقابلہ کیا، اس لڑائی میں بھی ان کو ہزیمت ہوئی۔ مسلمانوں کی فتوحات کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو دیکھ کر رومیوں نے بربریوں کو جو ابھی تک عیسائی مذہب میں داخل نہ ہوئے تھے اپنے ساتھ ملایا اور مسلمانوں کی تھوڑی سی جمعیت کے مقابلہ میں رومیوں اور بربریوں کی افواج کثیر نے میدان میں قدم جمایا، خون ریز جنگ کے بعد مسلمانوں کو فتح کامل حاصل ہوئی۔ آخر شہر طنجہ پر رومی بطریق سے آخری مقابلہ ہوا جس میں اس رومی گورنر نے اپنے آپ کو عقبہ بن نافع کے حوالے کر دیا، عقبہ نے اسے آزاد کر دیا اور شہر طنجہ کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر آگے بڑھے، پھر تمام ملک مراکش کو فتح کرتے ہوئے بحر ظلمات یعنی بحر اطلانتک کے ساحل تک پہنچ گئے، ساحل سمندر پر پہنچ کر عقبہ نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال کر کہا۔ الٰہی یہ سمندر اگر میرے راستے میں حائل نہ ہو جاتا، تو جہاں تک زمین ملتی میں تیری راہ میں جہاد کرتا ہوا چلا جاتا۔