کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 693
عبیداللہ بن زیاد نے جواباً لکھا کہ دو کام مجھ سے نہیں ہوں گے۔ میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کا ایک کام کر چکا ہوں اب خانہ کعبہ کے ویران کرنے کا دوسرا کام مجھ سے نہ ہو گا، یہ کام کسی دوسرے شخص کو سپرد کرنا چاہیے۔ مسلم بن عقبہ جب فوج لیے ہوئے مدینہ کے قریب پہنچا تو مدینہ والوں نے عبداللہ بن حنظلہ سے کہا کہ بنی امیہ جو مدینہ میں موجود ہیں یہ دمشق کی فوج آنے پر سب دشمنوں سے آملیں گے اور ہم کو اندرونی لڑائی میں مبتلا کر کے سخت نقصان پہنچائیں گے، مناسب یہ ہے کہ ان سب کو مسلم کے پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دیا جائے۔ عبداللہ بن حنظلہ نے کہا کہ اگر ہم نے بنی امیہ کو قتل کیا تو یزید تمام شامیوں کو اور عبیداللہ بن زیاد تمام عراقیوں کو لے کر چڑھ آئیں گے اور ہم سے ان کا قصاص طلب کریں گے، مناسب یہ ہے کہ ہم تمام بنی امیہ کو بلا کر ان سے اقرار لیں اور اس بات کی قسم دیں کہ وہ ہم سے نہ لڑیں گے اور ہمارے خلاف کسی قسم کی مدد حملہ آور فوج کو نہ دیں گے، یہ عہد و اقرار لے کر ہم ان کو مدینہ سے باہر نکال دیتے ہیں ۔ سب نے اس رائے کو پسند کیا اور عبداللہ بن حنظلہ نے تمام بنی امیہ سے مذکورہ عہد و اقرار لے کر سب کو مدینہ سے رخصت کر دیا، بجز عبدالملک بن مروان کے کہ اس کو مدینہ میں رہنے کی آزادی حاصل رہی۔ ان لوگوں کی وادی القریٰ میں مسلم بن عقبہ کے لشکر سے ملاقات ہوئی، مسلم نے ان سے پوچھا کہ ہم کو مدینہ پر کس طرف سے حملہ آور ہونا چاہیے، انہوں نے اپنے عہد و اقرار کا لحاظ کر کے مسلم کو جواب دینے سے انکار کیا اور اپنے عہد و اقرار کا عذر پیش کیا، مسلم نے پوچھا کہ تم میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے کوئی عہد نہ کیا ہو، اور اس سے قسم نہ لی گئی ہو، انہوں نے کہا ہاں عبدالملک بن مروان ایک ایسا شخص ہے اور وہ مدینہ میں موجود ہے۔ مسلم نے کہا کہ وہ نوجوان ہے ہم کو تجربہ کار بوڑھے کی ضرورت ہے، جو ضروریات جنگ سے واقف ہو، انہوں نے کہا کہ وہ نوجوان بوڑھوں سے بہت بہتر ہے، چنانچہ مسلم نے کسی کو بھیج کر مدینہ سے عبدالملک کو بلایا اور اس کے مشوروں کو سن کر حیران رہ گیا اور ان ہی پر عامل ہوا۔ مسلم نے مدینہ کے قریب پہنچ کر اہل مدینہ کے پاس پیغام بھیجا، کہ امیر المومنین یزید تم کو شریف سمجھتے اور تمہاری خون ریزی کو پسند نہیں کرتے ہیں ، بہتر یہی ہے، کہ تم اطاعت اختیار کرو ورنہ مجبوراً مجھ کو شمشیر نیام سے نکالنی پڑے گی، یہ پیغام بھیج کر تین دن مسلم نے انتظار کیا، مگر اہل مدینہ لڑائی پر آمادہ ہو گئے۔ آخر مسلم نے حرہ شرقیہ کی جانب سے مدینہ پر حملہ کیا۔ اہل مدینہ نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا اور لشکر شام کا منہ پھیر دیا، لیکن مسلم بن عقبہ کی بہادری و تجربہ کاری سے اہل مدینہ کو شکست ہوئی۔ عبداللہ