کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 692
یزید نے مدینہ کے حالات سے واقف ہو کر نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا کہ تم مدینہ جا کر لوگوں کو سمجھاؤ کہ ان حرکات سے باز رہیں اور مدینہ میں کشت و خون کے امکانات پیدا نہ کریں ، نیز عبداللہ بن حنظلہ کو بھی نصیحت کرو کہ تم یزید کے پاس گئے اور وہاں سے انعام و اکرام حاصل کر کے خوش و خرم رخصت ہوئے، لیکن مدینہ میں آکر یزید کے مخالف بن گئے اور بیعت فسخ کر کے یزید پر کفر کا فتوی لگا کر لوگوں کو برانگیختہ کیا، یہ کوئی مردانگی اور دانائی کا کام نہیں کیا، علی بن حسین رضی اللہ عنہ (سیدنا زین العابدین) سے مل کر میری طرف سے پیغام پہنچاؤ کہ تمہاری وفاداری و کارگزاری کی ضرور قدر کی جائے گی، بنو امیہ سے جو وہاں موجود ہیں کہو کہ تم سے اتنا بھی کام نہ ہوا کہ مدینہ میں فتنہ پیدا کرنے والے دو شخصوں کو قتل کر کے اس فتنے کو دبا دیتے۔ یہ باتیں سن کر نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما ایک سانڈنی پر سوار ہوئے، اور مدینہ کی طرف چلے، مدینہ میں آکر انہوں نے ہر چند کوشش کی اور سب کو سمجھایا مگر کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوا، مجبوراً وہ مدینہ سے دمشق واپس آگئے اور تمام حالات یزید کو سنائے۔
شامی لشکر کی مدینہ کی طرف روانگی :
یزید نے مطلع ہو کر مسلم بن عقبہ کو طلب کیا اور کہا کہ ایک ہزار چیدہ جنگ جو ہمراہ لے کر مدینہ پہنچو، لوگوں کو اطاعت کی طرف بلاؤ اگر وہ اطاعت اختیار کر لیں تو بہتر ہے، نہیں تو جنگ کر کے سب کو سیدھا کر دو۔ مسلم نے کہا کہ میں فرماں بردار ہوں ، لیکن آج کل بیمار ہوں ، یزید نے کہا کہ تو بیمار بھی دوسرے تندرستوں سے بہتر ہے اور اس کام کو تیرے سوا دوسرا انجام دینے کی قابلیت نہیں رکھتا، مجبوراً مسلم نے فوج انتخاب کر کے اپنے ہمراہ لی اور تیسرے روز دمشق سے روانہ ہو گیا۔
یزید نے رخصت کرتے وقت مسلم کو نصیحت کی کہ جہاں تک ممکن ہو نرمی اور درگزر سے کام لے کر اہل مدینہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا، لیکن جب یقین ہو جائے کہ نرمی اور نصیحت کام نہیں آسکتی تو پھر تجھ کو اختیار کامل دیتا ہوں کہ کشت و خون اور قتل و غارت میں کمی نہ کرنا، مگر اس بات کا ضرور خیال رکھنا کہ علی بن حسین رضی اللہ عنہ کو کوئی آزار نہ پہنچے، کیونکہ وہ میرا وفادار اور خیر خواہ ہے اور اس کا خط میرے پاس آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مجھ کو اس شورش اور بغاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یزید نے مسلم بن عقبہ سے یہ بھی کہا، کہ اگر تیری بیماری بڑھ جائے اور تو فوج کی سپہ سالاری خود نہ کر سکے تو میں مناسب سمجھتا ہوں کہ حصین بن نمیر تیرا قائم مقام ہو، تو بھی اس کو اپنا نائب مقرر کر دے۔
اس فوج کو رخصت کرنے کے بعد اسی روز یزید نے عبیداللہ بن زیاد کے پاس ایک قاصد کو خط دے کر بھیجا، خط میں لکھا تھا کہ تو کوفہ سے فوج لے کر مکہ پر حملہ کر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے فتنہ کو مٹا